1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: ایردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے، 'رن آف' کا امکان

15 مئی 2023

ترکی میں صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب ایردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے ہیں جس کے بعد اب 28 مئی کو انتخابات کے دوسرے مرحلے یعنی 'رن آف' میں فیصلے کا امکان ہے۔ ان کے حریف کمال کلیچ دار اولو کو 44.9 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4RLkF
Türkei Wahlen | Parteizentrale AKP
تصویر: Ali Unal/AP Photo/picture alliance

ترکی کی سرکاری میڈیا کے مطابق 97 فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو جانے کے بعد صدر ایردوآن کو 49.3 فیصد اور ان کے حریف کمال کلیچ دار اولو کو 44.9 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ انتخابات میں 5 فیصد سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آنے والے صدارتی امیدوار سنان اوان کنگ میکر بن گئے ہیں۔

تاہم حکمراں جمہوری اتحاد نے 600 نشستوں والی ترکی کی پارلیمان میں 323 سیٹیں جیت لی ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی میں صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 50 فیصد سے زائد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

انتخابی نتائج کی آمد کے دوران69 سالہ صدر ایردوآن نے انقرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی یہ کانٹے دار مقابلہ جیت سکتے ہیں لیکن پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے اور دوسرے مرحلے کے لیے میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔

ترکی میں انتخابات کے لیے ووٹنگ، ایردوآن کے لیے نازک مرحلہ

گزشتہ 20 برسوں سے مسلسل فتح حاصل کرنے والے ایردوآن نے کہا کہ گوکہ وہ اب بھی واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہیں لیکن "اگر ہماری قوم نے دوسرے مرحلے میں جانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس فیصلے کا بھی خیر مقدم۔"

ایردوآن کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انتخابات میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کو ہے۔ لیکن غیر سرکاری نتائج کے مطابق ان کو ملنے والے ووٹوں کی شرح حکومت بنانے کے لیے مطلوب پچاس فیصد سے کم ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 28 مئی کو دوبارہ انتخابات کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

دوسری طرف چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار74سالہ کمال کلیچ دار اولو کا کہنا تھا کہ ایردوآن نے قوم کا اعتماد کھو دیا ہے اور قوم اب تبدیلی کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم دوسرے راونڈ میں یقینی طور پر کامیاب ہوں گے اور ملک میں جمہوریت لائیں گے۔"

صدر ایردوآن نےکہا کہ وہ اب بھی یہ کانٹے دار مقابلہ جیت سکتے ہیں لیکن پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں دوسرے مرحلے کے لیے میدان میں اترنے کو تیار ہیں
صدر ایردوآن نےکہا کہ وہ اب بھی یہ کانٹے دار مقابلہ جیت سکتے ہیں لیکن پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں دوسرے مرحلے کے لیے میدان میں اترنے کو تیار ہیںتصویر: Jeff J. Mitchell/Getty Images

ہیرا پھیری کا الزام

مبصرین کے مطابق یہ ایردوآن کے بیس سالہ اقتدار کے دوران سب سے مشکل انتخاب ہے۔

حزب اختلاف کے امیدوار اولو نے  انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ ان کے مطابق ایک وقت تک انہیں انتخاب میں سبقت حاصل تھی۔ حزب مخالف کی جماعتوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو پر تعصب برتنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

ایردوان کی اے کے پارٹی کے ترجمان عمر چیلک نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے انادولو پر لگائے جانے والے الزامات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔

ترکی میں حزب اختلاف کا روس پر انتخابات میں مداخلت کا الزام

ترکی کی الیکشن اتھارٹی، سپریم الیکٹورل بورڈ نے کہا کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو ایک ایک لمحے کی اطلاعات فراہم کر رہا ہے اور جیسے ہی ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی اس کے نتائج عام کر دیے جائیں گے۔

اس دوران پارلیمانی انتخابات میں ایردوآن کی اے کے پارٹی نے اب تک 50 فیصد سے زائد نشستیں جیت لی ہیں جب کہ اولو کا قومی اتحاد 35 فیصد ووٹ حاصل کر سکا ہے۔

حزب اختلاف کے امیدوار کمال کلیچ دار اولو نے  انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ ان کے مطابق ایک وقت تک انہیں انتخاب میں سبقت حاصل تھی
حزب اختلاف کے امیدوار کمال کلیچ دار اولو نے  انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ ان کے مطابق ایک وقت تک انہیں انتخاب میں سبقت حاصل تھیتصویر: ADEM ALTAN/AFP

ترکی کے لیے اس انتخاب کی اہمیت

ترکی میں ہونے والے انتخابات کو جدید ترکی کی 100 سالہ تاریخ کے اہم ترین انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے نتائج نہ صرف رجب طیب ایردوآن کی صدارت کا خاتمہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کی حکومت کے بڑھتے ہوئے آمریت پسندانہ اقدامات کے سامنے بھی بند باندھ سکتے ہیں۔

لیکن اگر ایردوآن اور ان کی جماعت ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو پھر ان کا اقتدار تیسری دہائی میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔

ترکی انتخابات: کیا محرم کی دستبرداری ایردوآن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟

انتخابات کے نتائج نہ صرف یہ طے کرے گی کہ 85 ملین آبادی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن اس ملک کی سربراہی کون کرے گا بلکہ یہ فیصلہ بھی ہو گا کہ ملک میں مستقبل کا طرز حکمرانی کیا ہو گا، جس کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور زندگی گزارنے کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کی خارجہ پالیسی کی بھی سمت متعین ہو گی۔

نیویارک میں سینٹ لارینس یونیورسٹی میں مشرقی وسطیٰ کی تاریخ کے پروفیسر ہاورڈ ایزن اسٹیٹ کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے کے الیکشن میں اردوآن کو فائدہ ہو گا کیونکہ ان کی جماعت پارلیمانی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ووٹر ایک "منقسم حکومت" نہیں چاہیں گے۔

ترک الیکشن: کیا ایردوآن متحد اپوزیشن کو شکست دے سکیں گے؟

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)