1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک انتخابات: تیسرے امیدوار کا ایردوآن کی حمایت کا اعلان

23 مئی 2023

انتہائی دائیں بازو کے ترک رہنما سنان اوغان نے رن آف ووٹ میں موجودہ صدر طیب ایردوآن کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل وہ اس کے بدلے میں تمام مہاجرین کو ملک بدر کرنے جیسے مطالبات کر رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/4Rgrv
Türkei Wahlen Sinan Ogan und Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Turkish Presidency via AP/AP Photo/picture alliance

ترکی کے حالیہ صدارتی انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے انتہائی قوم پرست امیدوار سنان اوغان نے پیر کے روز اعلان کیا کہ صدارتی انتخابات کے رن آف مقابلے میں وہ موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کی حمایت کریں گے۔

ترکی میں حزب اختلاف کا روس پر انتخابات میں مداخلت کا الزام

14 مئی کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں سنان کو 5.2 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور پہلے یہ بات واضح نہیں تھی کہ آیا وہ ایردوآن کی حمایت کریں گے یا ان کے اہم حریف کمال کلیچدار اولو کا ساتھ دیں گے۔

ترکی انتخابات: کیا محرم کی دستبرداری ایردوآن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟

پہلے مرحلے کے صدارتی انتخابات میں طیب ایردوآن کو 49.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کے حریف کمال کلیچدار اولو کو 44.9 فیصد ووٹ ملے تھے۔ کامیابی کے لیے پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے، اسی لیے 28 مئی کو انتخابات کے دوسرے مرحلے یعنی 'رن آف' کا فیصلہ کیا گیا۔

ترک صدر ایردوآن کی علالت کے بعد انتخابی مہم میں واپسی

 پانچ فیصد سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آنے والے صدارتی امیدوار سنان کو کنگ میکر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جنہوں نے پیر کے روز قومی ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم 28 مئی کو ہونے والے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں عوامی اتحاد کے امیدوار رجب طیب ایردوآن کی حمایت کریں گے۔''

ترکی میں انتخابات کے لیے جرمنی میں مقیم ڈیڑھ ملین ترکوں کے لیے پولنگ اسٹیشن کُھل گئے

اوغان نے مزید کہا کہ یہ لازمی ہے کہ اگلا صدر اسی سیاسی اتحاد سے تعلق رکھتا ہو جس نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی ہو۔

Türkei Wahlen Wahlplakat
پہلے مرحلے کے صدارتی انتخابات میں طیب ایردوآن کو 49.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کے حریف کمال کلیچدار اولو کو 44.9 فیصد ووٹ ملے تھے، اب دونوں میں 28 مئی کو براہ راست مقابلہ ہو گاتصویر: Tunahan Turhan/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance

انہوں نے مزید کہا کہ کلیچدار او لو کا قومی اتحاد اس، ''عوامی اتحاد کے خلاف خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر سکا، جو گزشتہ 20 برسوں سے اقتدار میں ہے، اور ایسا نقطہ نظر بھی قائم نہیں کر سکا، جو ہمیں مستقبل کے بارے میں قائل کر سکے۔''

اوغان کے مطالبات کیا تھے؟

پچھلے ہفتے سنان اوغان نے رن آف میں اپنی حمایت دینے کے لیے کئی شرائط رکھی تھیں۔ اس میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے ساتھ ہی لاکھوں پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ٹائم لائن مقرر کرنا بھی شامل تھا۔

ترکی میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے، جس میں تقریباً 3.7 ملین شامی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

اوغان نے اپوزیشن جماعتوں کو آئین میں ان تبدیلیوں پر بحث کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کی جس سے ترک زبان کمزور پڑ سکتی ہو۔ ان کا زور اس بات پر ہے کہ ایسی تبدیلیوں سے دوسری نسلوں کی قیمت پر ملکی زبان کمزور ہو سکتی ہے۔

تاہم صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ وہ ایسے مطالبات کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے سی این این انٹرنیشنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو اس طرح سے مذاکرات کرنا پسند کرتا ہو۔

اس دوران کلیچدار اولو بھی ان کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، ترکی میں مقیم مہاجرین کے خلاف جذبات بھڑکانے جیسے بیان دیتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ''تمام مہاجرین کو گھر بھیجنے'' کی بات کہی۔

انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر وہ صدارت حاصل کر لیتے ہیں تو پھر وہ پی کے کے ساتھ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات نہیں کریں گے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

ترک الیکشن: ایردوآن پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے