1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹیبلشمنٹ کے نئے سیاسی فارمولے کی کامیابی کے امکانات

31 مئی 2023

پاکستان میں بدلتے ہوئے حالات میں ایک مرتبہ پھر سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث جاری ہے۔ تجزیہ کار اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی سیاسی حکومت بنوانے میں کامیاب ہو سکے گی؟

https://p.dw.com/p/4S0wG
Kombo | Imran Kahn und Syed Asim Munir
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے کہ کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اب بھی اپنی مرضی کی سیاسی حکومت بنوانے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والی حکومت کی کامیابی کے امکانات کتنے ہوں گے۔

حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ایک 'کنگز پارٹی‘ تیار کی جا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کیا جائے گا۔ دوسری طرف ایک بڑے ٹی وی چینل پر بات کرنے والے کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں نے پنجاب میں دو نئی سیاسی جماعتیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے ایک جہانگیر ترین کی سیاسی جماعت ہو گی اور دوسری عمران خان کو 'مائینیس‘  کرکے بننے والی پاکستان تحریک انصاف ہوگی۔

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا اندازہ لگانے سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستانی سیاست میں مداخلت نہ کرنے اور غیرجانبدار رہنے کا اعلان کر چکنے والی پاکستانی  اسٹیبلشمنٹ  خود اپنی مرضی کی سیاسی جماعت بنانے اور اقتدار میں لانے میں کوئی دلچسپی رکھتی بھی ہے یا نہیں؟

کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی سیاسی حکومت بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے؟

ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات بڑی قبل از وقت ہے۔ ابھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی بنیادی حیثیت منوانے کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ ابھی کئی دوسرے مسائل کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔ مرضی کی حکومت بنوانے کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ ایک اور تجزیہ نگار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ختم ہو گیا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی ساری تاریخ ہمارے سامنے ہے '' یہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہی ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو انگیج کرکے ہی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے نظر آتے رہتے ہیں۔‘‘ تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک مستقبل کے سیاسی بندوبست میں دلچسپی رکھتی ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کہتے ہیں کہ اس صورتحال کو منفی انداز میں دیکھنا درست نہیں اسٹیبلشمنٹ پاکستانی کی ریاست کا ایک ایم ستون اور اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس کے کاندھوں پر نہ صرف قومی سلامتی کا بوجھ ہے بلکہ اس نے کئی مرتبہ سویلین حکومت کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کے حل میں مدد دی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ایک زمینی حقیقت ہے اس کو نظر انداز کرکے اہم فیصلے نہیں کیے جا سکتے اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

کہانی بڑے گھر کی اصل میں پاکستان کی کہانی ہے، عاصمہ شیرازی

کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومت بنوانے کی اب بھی اہلیت رکھتی ہے؟

 اس سوال کے جواب میں مختلف سیاسی مبصرین مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں حکومت بنانے کے عمل میں بہت سے عوامل درپیش ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ساری چیزیں طے شدہ انداز میں آگے بڑھیں یہ حالات پر منحصر ہے کہ وہ کسی ایسے اقدام کے لیے کس حد تک سپورٹ  فراہم کرتے ہیں۔ سلمان عابد کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس نئی حکومت بنوانے کی طاقت تو موجود ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی انجنینرنگ، جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور سیاسی معاملات میں مداخلت جیسے پرانے الزامات کا پھر سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفاد میں یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے دور رہے۔ ڈاکٹر عاصم کے بقول اسٹیبلشمنٹ فی الحال اپنی طاقت منوانے کے مرحلے سے گذر رہی ہے جسے پچھلے کچھ عرصے میں چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اپنی کھوئی ہوئی رٹ کی بحالی تو ضرور چاہے گی۔ اگر اس نے اپنا وزن کسی سیاسی دھڑے کی طرف ڈال دیا تو اس کے اثرات الیکشنز، ووٹرز اور سیاست پر ضرور ہوں گے۔  

 کیا اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے بننے والی حکومت کامیاب ہو سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں عمران خان اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر عوام کی حمایت سے بننے والی حکومت ہی ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے۔ فاروق حمید کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ اور عوامی منتخب حکومتیں ایک صفحے پر تھیں تب ملک میں استحکام بھی تھا اور ملک نے ترقی بھی کی تھی تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر فطری طور پر زبردستی  بنوائے گئے اتحادوں کو برسر اقتدار لانے سے حکومت شارٹ ٹرم اہداف تو شاید پورے کر لے لیکن وہ لانگ ٹرم ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے گی۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اپنے لیے ''کمفرٹ زون‘‘ کی تلاش میں ہے۔ وہ پچھلے ایک سال سے سخت دباو میں رہی ہے۔ وہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاری پراپیگنڈے کا توڑ چاہتی ہے، معیشت کی بہتری کی خواہاں ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کا حل چاہتی ہے۔ ان کے خیال میں عام آدمی کی بہتری کے لیے ایک مضبوط حکومت ہی ڈیلور کر سکتی ہے لیکن اگر اتحادی اکٹھے کرکے ڈھیلی ڈھالی کمزور حکومت بنوائی گئی تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں  اسٹیبلشمنٹ  کا اثر رسوخ آئندہ بھی رہے گا۔

کیا سیاستدان سیویلین بالا دستی کے لیے متحد ہو سکتے ہیں؟

تجزیہ کار سلمان عابد کے بقول، ''جب تک پاکستانی سیاست دان خود سیویلین بالا دستی کے لیے مخلص ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہیں ہوتے سیویلین بالا دستی کا تصور خواب ہی رہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا  کہ سیاست دانوں کا ایک گروپ سویلین بالا دستی کی بات کرتا ہے تو دوسرا اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتا ہے۔ ''پہلے نواز شریف سویلین بالادستی کی آواز بلند کر رہے تھے لیکن عمران اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔ اب عمران سیویلین بالادستی کی دہائی دے رہے ہیں لیکن نواز شریف اور پی ڈی ایم کے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گئے ہیں۔ ''ہماری سیاسی جماعتوں کو ووٹ کی عزت، سیویلین بالا دستی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پر عملی طور پر متحد ہونا ہوگا۔‘‘

فاروق حمید کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں سیاست دانوں کے سویلین بالا دستی کے لیے متحد ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔'' ہمارے سیاست دان اپنی اخلاقی پوزیشن کھو چکے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی اور اپنے خاندانوں سے آگے بڑھ کر نہیں سوچ رہے۔ وہ صرف شارٹ ٹرم مسائل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ایک قومی سلامتی کا معاملہ ہے'' اگر سیاست دان الیکشن کی شفافیت پر کمپرومائز نہ کریں اور مرضی کے نتائج کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھیں تو ایک غیر متنازعہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے سویلین بالادستی کی طرف پیش رفت ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سیاست دانوں کو الیکشن اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے اپنے اندر اتفاق پیدا کرنا ہوگا۔‘‘

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کیا کرنا چاہیے؟

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ  اسٹیبلشمنٹ کو وقتی مسائل میں الجھنے کی بجائے لانگ ٹرم اپروچ کو اپنانا ہوگا۔ اسے 'پراجیکٹ عمران‘ جیسے تجربوں سے دور رہنا چاہیے۔ عوام اور اسٹیبلشمنٹ میں پیدا ہونے والے فاصلوں کو کم کرنے اور اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضروت ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو دیانت داری سے حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ ماضی میں وہ گھوری ڈال کر جو کام کروا لیا کرتے تھے ان انہیں اس کے لیے بازو مروڑنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ سلمان عابد کے بقول شفاف انتخابات کے ذریعے بھرپور عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے آنے والی حکومت ہی قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا کر ملک کو آگے لے جا سکتی ہے۔ عوامی حمایت رکھنے والے عوامی نمائندے ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ خیر خواہ ہو سکتے ہیں۔ ان پر اعتبار کرکے جمہوری اداروں کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ فاروق حمید کے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے عوام کے دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنے کی ضرورت ہے۔