1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

20 جنوری 2023

نواز شریف نے ایک حالیہ بیان میں ملک کے موجودہ بحران کی ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید پرعائد کرتے ہوئے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4MVXc
USA |  Pakistan's Prime Minister Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/S. Platt

گذشتہ روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پہلی بار پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے اس موقع پر 'عمران پراجیکٹ‘ کا ذکربھی  کیا اور کہا کہ  ذاتی مفاد کے لیے پاکستان کے ساتھ گھناؤنا مذاق کیا گیا۔''حقیقت سب کے سامنے ہے، اب کوئی نام اور چہرہ چھپا ہوا نہیں ہے، پاکستان کو ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کیا گیا۔‘‘

نواز شریف کے بیان کی ٹائمنگ بہت اہم

کئی تجزیہ نگاروں کے بقول یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ممکنہ طور پر جاری بیک چینل بات چیت کے حوالے سے کامیاب پیش رفت کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ عدالتوں سے عمران خان کو ریلیف مل رہا ہے اور پی ٹی آئی کی طرف سے اسمبلیوں میں واپس آنے اور قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سنبھالنے کے اشارے مل رہے تھے۔ ایسے میں جمعہ کے روز اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے پینتیس مزید ارکان اسمبلی کے استعفوں کو منظور کر لیا۔

ممتاز صحافی اور تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف تک یہ بات پہنچائی گئی تھی کہ پنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدان چوہدری پرویز الٰہی کا پنجاب اسمبلی میں کامیابی سے اعتماد کا ووٹ لے لینا اور پھر انہی کے ہاتھوں پنجاب اسمبلی کا تحلیل ہونا ایک معنی خیز اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ ان کے بقول چوہدری پرویز الٰہی جیسے سیاست دان کا تحریک انصاف میں جانے کی بات کرنا ان کا اپنا فیصلہ معلوم نہیں ہوتا۔ 

''مسائل کی وجہ ہم نہیں پرانی اسٹیبلشمنٹ ہے‘‘

ایک قومی روزنامے سے وابستہ ممتاز کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی طرف سے پرانی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید سے ان کو یہ فائدہ بھی مل رہا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک کی موجودہ بحران کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ جنرل باجوہ اور ان کے بعض ساتھی تھے۔

Pakistan Qamar Javed Bajwa
اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی جنرل باجوہ کی پالیسیوں پر تحفظات رکھنے والے موجود ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo/M. Yousuf

''دوسری طرف وہ ان مسائل کے حل کرنے کا عزم ظاہر کرکے انتخابات اکتوبر تک لے جانے کا پیغام بھی متعلقہ حلقوں تک پہنچا رہے ہیں۔ نواز شریف کہنا یہ چاہتے ہیں کہ چار سال تک ایک پیج پر رہنے والوں  کے پیدا شدہ حالات کو چند مہینوں میں درست کیے جانے کی توقعات نہ رکھی جائے۔ خان صاحب کی طرف سے ہینڈلرز کی بات کرنا اور نواز شریفکی طرف سے سلیکٹرز کی بات کرنا دراصل اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے ہے۔‘‘

کیا نواز شریف کی آمد کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟

سینیئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کے مطابق نواز شریف بغیر ایسے بیانات داغے اگر پاکستان آتے ہیں تو عمران خان ان پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان کا استقبال کریں گے۔ اس لیے نواز شریف نے یہ رستہ اپنایا ہے کہ صٖفائیاں دینے کی بجائے لوگوں کی توجہ بحران کے ذمہ داروں کی طرف مبذول کروائی جائے۔ اخباری خبروں کے بقول مسلم لیگ نون آنے والے انتخابات میں جنرل (ر)قمر باجوہ۔ جنرل (ر)فیض حمید، اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت ان کی حکومت ختم کرنے کے ذمہ دار افراد کو نشانہ بنانے والا بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔

کیا نواز شریف پرانے بیانیے کی طرف آ رہے ہیں؟

نوید چوہدری کے بقول نواز شریف پہلا سیاست دان ہے جس نے گوجرانوالہ کے جلسے میں پوری قوت کے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف اور خفیہ ادارے کے سربراہ کو نام لے کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس پر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی دوسری طرف نواز شریف کو عوام میں بہت مقبولیت ملی تھی۔ پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ عمران خاننواز شریف کا بیانیہ اپنا کر مقبول ہو گئے اور مسلم لیگ نون کی سیاست عوامی حمایت سے محروم ہوتی چلی گئی۔ ''اب نواز شریف کے پاس آپشنز بہت کم رہ گئے ہیں وہ سابق فوجی قیادت پر تنقید کرکے اپنی کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت کا ازالہ چاہتے ہیں۔ نواز شریف کو شک ہے کہ عمران خان کو اب بھی دست شفقت میسر ہے۔ میڈیا میں ان کو اپنا بیانیہ پیش کرنے کی مکمل سہولت ہے اور انہیں لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے پنجاب ہتھیانے کی سازش کی جا رہی ہو۔‘‘

Pakistan l  PTI-Chef Imran Khan spricht auf einer Pk im Shaukat Khanum Hospital in Lahore
نواز شریف کو شک ہے کہ عمران خان کو اب بھی دست شفقت میسر ہےتصویر: PTI Media Cell

 

کیا موجودہ تنقید سے نواز شریف اسٹیبلشمنٹ تعلقات متاثر ہوں گے؟

سینیئر تجزیہ کارحفیظ اللہ نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف اس سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس نے موجودہ آرمی قیادت کی تقرری کی مخالفت کی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی جنرل باجوہ کی پالیسیوں پر تحفظات رکھنے والے موجود ہیں اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ان بیانات کا برا نہیں منائے گی۔ تاہم تجزیہ کار نوید چوہدری کے مطابق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ پاکستان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ طاقتور کے خلاف اصولی اسٹینڈ لینے والے کو عوام پسند کرتے ہیں اور ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو ریلیف ملتا رہا ہے۔

نیب قوانین میں مزید ترامیم: تنقید کا سلسلہ شروع

کیا عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت ہو گئی ہے؟

سینیئر تجزیہ کارحفیظ اللہ نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ عمران اور اسٹیبلشمنٹ میں ماضی کی طرح کی کوئی انڈراسٹینڈنگ ہوسکے۔ اگر دونوں مفاہمت کی کوئی کوشش کریں گے بھی تو یہ ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے ہوں گے۔ نوید چوہدری کا موقف یہ ہے کہ عمران خان نے ایک تو ڈیلور نہیں کیا دوسرے وہ آرمی پر تنقید کے ضمن میں بہت آگے چلے گئے تھے۔ اب اس بوجھ کو دوبارہ اٹھانا اسٹیبلشمنٹ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ البتہ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک کسی ایک جماعت کو بہت زیادہ طاقتور بننے دینا بھی مقتدر حلقوں کے نزدیک مناسب نہیں ہوگا۔