1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟

10 مارچ 2023

عمران خان اور آصف زرداری کی موجودہ سیاسی اہمیت دیکھتے ہوئے مستقبل کے منظر نامے میں ان دونوں کی بھر پور موجودگی کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4OWQW
Bildkombo: Imran Khan with Asif Ali Zardari NUR querformat!!
تصویر: Imago/DW

پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اگرچہ انتخابات کے حوالے سے غیریقینی صورتحال اب بھی موجود ہے لیکن کئی تجزیہ کار اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے۔

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینئیر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے اور نئی  قیادت نے اس ضمن میں کوئی زیادہ بات نہیں کی ہے۔ ہم اس بارے میں جو اندازہ لگا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی بحران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تشویش کا باعث ہے اور سیاسی عدم استحام کا باعث بننے والا اندرونی سیاسی خلفشار بھی ان کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔

جنرل کی گرفتاری: کیا پی ٹی آئی کے خلاف سختی بڑھ رہی ہے؟

Pakistan | General Syed Asim Muni
نئی فوجی قیادت کی موجودگی میں پاکستان میں عام انتخابات پہلی مرتبہ ہوں گےتصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

سیاسی استحکام سے جڑی ملکی سلامتی

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ضرور یہ چاہے گی کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو اور ملک آگے بڑھے کیونکہ معاشی و اندرونی سکیورٹی کا ملکی سلامتی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے۔

 ڈاکٹر عسکری کے خیال میں ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کی فضا میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر سیاسی لڑائیاں اسی طرح جاری رہیں اور بحران بڑھ گیا تو اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں قطعیت کے ساتھ اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس وقت بیرونی خطرات کی نسبت اندرونی چیلنجز بہت اہمیت اختیار کر تے جا رہے ہیں۔

انتخابات جیتنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد نہیں چاہتے، عمران خان

ڈاکٹڑ عسکری کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو اپنے سیاسی امور طے کرکے الیکشن کی طرف آنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس سے اسٹیبلشمنٹ بھی مایوسی کا شکار ہوگی۔ ان کو یقین نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں وقت پر الیکشن ہو سکیں گے۔ ڈاکٹر عسکری کے مطابق، ''اگرچہ الیکشن ایک آئینی تقاضا ہے لیکن پھر بھی کئی وفاقی وزیر الیکشن کے خلاف بیانات دے چکے ہیں۔ ‘‘

اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی

 ایک قومی روزنامے سے وابستہ کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ ملک کو درپیش معاشی بحران ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ ان کے مطابق ملک کے بالادست طبقےمعاشی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے این ایف سی کو بہتر بنانا، اٹھارہویں ترمیم کی خامیوں کو درست کرنا اور بیرونی دباؤ کے باوجود درآمدات کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عاصم کے خیال میں آنے والی حکومت کو کامیاب بنانے اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا،''اگر وفاق کے پاس پیسے نہیں ہوں گے اور صوبے پوری طرح وفاقی محاصل ہی اکٹھے نہیں کر پائیں گے تو ملک کے قرضے کیسے ادا ہوں گے؟‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''صوبوں کو وفاقی محاصل کی وصولی کا پابند بنایا جانا چاہئیے اور وفاقی محاصل کی رقم صوبوں کے حصوں سے منہا کرنی چاہئے۔ہم نے دو اعشاریئہ اکانوے ارب ڈالر کے ساتھ بھی پچھلے دنوں گذارہ کیا ہے اب اگر خزانے میں دس ارب ڈالربھی  آ جائیں تو ہمیں پھر بھی ہاتھ روک کر امپورٹس پر خرچ کرنا چاہئیے۔ اس سے ڈالر بھی بچیں گے اور ملکی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا۔ ‘‘

Pakistan Islamabad Kinderarbeit Armut
معاشی عدم استحکام نے غربت میں اضافہ کیا ہے اور عام لوگوں کی مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

خان اور زرداری اہم کیوں؟

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ اس طرح کے مشکل فیصلے یا توعمران خان  کر سکتے ہیں، جسے عوام میں بھرپور مقبولیت حاصل ہے اور یا پھر یہ فیصلےآصف علی زرداریکر سکتا ہے کیونکہ چھوٹے صوبوں کے سیاستدان ان کی بات پر اعتبار کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں ان دونوں سیاستدانوں کی موجودگی کے امکانات کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ  طویل احتجاجی عمل کے بعد عمران خان تھکاوٹ کا شکارہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے جیل بھرو تحریک بھی ختم کردی ہے اور ریلی نکالنے کا سلسلہ بھی معطل کر دیا ہے۔  وہ بات کرنے کے متمنی ہیں اور وہ سمجھوتہ کرنے اور گولی مارنے والوں کو معاف کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی صدارت پر چوہدری پرویز الہی کی موجودگی نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف زرداری اور ان کے ساتھی بھی پاکستان مسلم لیگ نون سے فاصلہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف ہے؟

ایک اور تجزیہ نگاربرگیڈیر فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اقتدار میں آنے کے لئے ووٹوں کے علاوہ بھی بہت سی عوامل  کردار ادا کرتے ہیں۔ اصولی طور پر تو انتخابات آزادانہ اورمنصفانہ ہی ہونے چاہیئں لیکن یہاں کئی دفعہ ووٹ ڈالنے سے بھی زیادہ ووٹوں کی گنتی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہاں رزلٹس بدلنے، روکنے اور تبدیل کر دینے کی شکایات بھی ملتی رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں، مقامی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے عملے سمیت کئی اسٹیک ہولڈرز کو انتخابات پر غیرقانونی طور پر اثرانداز ہونے کے جرم میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔‘‘ 

ایک سوال کے جواب میں فاروق حمید کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہاں استحکام آئے، معاشی بحران ختم ہو، عوامی بےچینی کا خاتمہ ہو۔ اور پھر سے سر اٹھانے والی دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔ لیکن اگر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ آ سکا تو پھر کوئی ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔

فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر دو ہزار سات میں کئی سیاسی جماعتوں کو ملنے والے این آر او اور نواز شریف کی ملک سے باہر روانگی جیسے واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بیرونی طاقتوں کا رول کتنا زیادہ ہے۔ ان کی رائے میں بلاول بھٹو زرداری کے بار بار کے واشنگٹن کے دوروں سے بھی ہواؤں کے رخ  سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

کہانی بڑے گھر کی اصل میں پاکستان کی کہانی ہے، عاصمہ شیرازی