1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رافیل کی خرید میں بدعنوانی، تحقیق کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ

14 نومبر 2019

بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا ہے کہ دفاعی نکتہ نظر سے ہونے والے معاہدوں اور سودوں کی قیمتیں طے کرنا عدالت کے دائرے اختیار میں نہیں آتا اور یہ حکومت کا کام ہے جس کا وہ خیال رکھے گی۔

https://p.dw.com/p/3T342
Frankreich Übergabe erster Rafale Kampfjet an Indien
تصویر: AFP/G. Gobet

عدالت عظمی نے اس سے متعلق گزشتہ دسمبر میں دو درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جس میں رافیل جنگی طیاروں کی خرید میں بد عنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے، عدالت کے زیر نگرانی اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا گيا تھا۔ یہ عرضیاں بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ دو سابق مرکزی وزراء اور سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل پرشانت بھوشن نے دائر کی تھیں۔ اسی فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی گئی تھی جسے عدالت نے پوری طرح سے مسترد کر دیا۔

لیکن تین ججوں پر مشتمل بینچ کے اس فیصلے پر بحث پھر تیز ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی اور سنجے کشن کول نے قیمتوں سے متعلق کہا، ''دستاویزات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آم اور املی کی قیمت ایک نہیں ہوسکتی۔‘‘ لیکن جسٹس جوزف نے  اپنے فیصلے میں اس کی آزادانہ تفتیش کا راستہ بھی ہموار کر دیا ہے اور کہا کہ کوئی بھی تفتیشی ایجنسی اس کی تفتیش کر سکتی ہے۔

بھارت نے 2010ء میں فرانس کی ڈسالٹ ایوی ایشن کمپنی سے ایک سو سے زائد رافیل جنگی طیارے خریدنے کی بات شروع کی تھی لیکن 2014ء میں مودی کی حکومت اقتدار میں آئی اور اس نے 2016ء میں 59 ہزار کروڑ روپے میں 36 رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے تحت ڈسالٹ نے انڈيا میں 50 فیصد رقم  کی سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا اور  اس کے تحت جہاز کے چھوٹے پُرزے بنانے کے لیے ارب پتی انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس سے معاہدہ کیا گيا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں اور دیگر ماہرین کا الزام ہے کہ یہ اصل سے بہت زیادہ قیمت پر اس لیے خریدے گئے تاکہ ریلائنس کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انیل امبانی کی ریلائنس کمپنی کو دفاعی امور میں کوئی بھی تجربہ نہیں ہے تو پھر حکومت نے اسے یہ معاہدہ کیوں سونپا؟ پارلیمان میں بھی اس مسئلے پر خوب ہنگامہ ہوا تھا تاہم حکومت نے تفتیش کے تمام مطالبات مسترد کر دیے اور اس طرح یہ کیس سپریم کورٹ تک پہنچا۔

اس مہم میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی پیش پیش تھے اور انھوں نے وزیراعظم کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'چوکیدار چور ہے‘۔ اس پر راہول گاندھی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی جس پر آج سماعت ہوئی اور راہول کی معذرت کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے انھیں بیان بازی میں محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

حکومت رافیل سے متعلق عدالت کے فیصلے کو اپنے موقف کی جیت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس کے تمام بڑے وزراء اور رہنماء صبح ہی سے اس پر بیان دے رہے ہیں۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کا کہنا ہے، ''یہ سچ کی جیت ہے اور راہول گاندھی کو اس کے لیے قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ انھیں عوام اور عدالت دونوں سے شکست ملی ہے۔‘‘

Flugzeug Dassault Rafale
بھارت نے 2010ء میں فرانس کی ڈسالٹ ایوی ایشن کمپنی سے ایک سو سے زائد رافیل جنگی طیارے خریدنے کی بات شروع کی تھی۔تصویر: picture-alliance/dpa

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن سمیت کئی رہنماؤں نے عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو فیصلے  پر بہت خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ عدالت نے اس معاہدے کی آزادانہ تفتیش کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔

راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ''رافیل سکیم کی تفتیش کے لیے جسٹس جوزف نے ایک بڑا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب اس کی مکمل تفتیش ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس اسکیم کی تفتیش کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل  بھی ضروری ہے۔‘‘

کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے اس سے متعلق صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''عدالت نے کہا ہے کہ وہ تو قانون کی پابند ہے لیکن پولیس یا سی بی آئی جیسی کوئی بھی تفتیشی ایجنسی اس کی آزآدانہ تفتیش کر سکتی ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی ایسی آزادنہ تفتیش میں رخنہ بھی نہیں ڈالے گی۔‘‘

اس کیس کے ایک اہم عرضی گزار اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بھی اس فیصلے پر یہ کہہ کر مایوسی کا اظہار کیا، ''اس کیس میں ہماری اصل درخواست تو ایف آئی آر درج کروانا تھی جس پر عدالت نے کوئی بات ہی نہیں کی۔‘‘

لیکن حال ہی میں سبکدوش ہونے والے بھارتیہ فضائیہ کے سابق سربراہ بی ایس دھنوا نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے خیال سے اب اس کیس کو یہیں پر ختم کر دینا چاہیے، اس پر سیاست ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘

رافیل جنگی جہازوں کی خرید و فروخت میں مبینہ بد عنوانی کا معاملہ حکومت کے لیے خفگی کا باعث رہا ہے اور عدالت کے فیصلے سے اسے بڑی راحت ملی ہوگی۔ لیکن بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ معاہدہ اتنا ہی صاف شفاف ہے تو پھر حکومت کو اس کی تفتیش سے اجتناب کیوں ہے؟ آخر اس مسئلے پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر اعتراض کیوں ہے؟

 

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔