1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلا میں ریکارڈ ہونے والا آج تک کا سب سے بڑا اور روشن دھماکہ

21 مئی 2023

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی زوِیکی فیسیلیٹی میں سن دو ہزار بیس میں ایک بہت بڑا خلائی فلیش یا روشن دھماکہ حادثاتی طور پر ریکارڈ ہو گیا تھا۔ اب طے ہو گیا ہے کہ یہ خلائی فلیش آج تک ریکارڈ شدہ سب سے بڑا اور روشن دھماکہ تھا۔

https://p.dw.com/p/4RaqE
 cosmic explosion
تصویر: Sonoma State University/NASA

ایک لامحدود چکا چوند جیسا یہ فلیش خلا میں از خود ریکارڈ ہو گیا تھا اور ماہرین فلکیات کو اس کا علم ایک سال بعد ڈیٹا کا جائزہ لیتے ہوئے ہوا تھا۔ اب ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق سے واضح ہوا ہے کہ یہ فلیش دراصل اب تک خلا میں ریکارڈ ہونے والا سب سے بڑا دھماکہ تھا۔

بین الاقوامی خلائی مرکز میں مسلمان خلا باز روزے کیسے رکھتے ہیں؟

ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے فلکیاتی ماہرین کی ایک ٹیم خلا میں 2020ء میں ہونے والے اس دھماکے سے متعلق اب جس نتیجے پر پہنچی ہے، اس کے مطابق یہ روشن ترین خلائی دھماکہ اس سے قبل ریکارڈ کردہ انتہائی روشن 'سپر نووا‘ دھماکے کی روشنی سے بھی دس گنا زیادہ روشن تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ایک خلائی طبیعیاتی عمل کے طور پر یہ بہت بڑا cosmic explosion ایک بلیک ہول کی طرف سے گیس کے ایک بہت بڑے بادل کے نگلے جانے کے باعث ممکن ہوا۔

اسپیس ایکس بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ

Wissenschaft Große kosmische Explosion
شیفیلڈ یونیورسٹی کی جاری کردہ ایک تصویر: ایک روشن خلائی دھماکہ، ایک آرٹسٹ کی نظر سےتصویر: Mark A. Garlick/Sheffield University/AFP

یہ خلائی عمل ریکارڈ کیسے ہوا؟

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں Zwicky Transient Facility یا ZTF کے فلکیاتی ماہرین کے مطابق  اس خلائی فلیش کے 2020ء میں حادثاتی طور پر ریکارڈ ہو جانے کے ایک سال بعد جب انہیں ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے AT2021WX کا نام دیا تھا۔

روس اور مغرب اب بھی خلا میں مل کر کیوں کام کر رہے ہیں؟

اس فلیش کی شناخت امریکی ریاست ہوائی میں واقع Asteroid Terrestrial-impact Last Alert System نامی نظام نے بھی کر لی تھی۔ کیلیفورنیا اور ہوائی کی امریکی ریاستوں میں فعال یہ دونوں مشاہداتی نظام رات کے وقت آسمان پر ہونے والے غیر معمولی واقعات کی شناخت اور انہیں ریکارڈ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

زیڈ ٹی ایف کے ماہرین  کے مطابق  ابتدا میں انہیں یہ اندازہ تو تھا کہ یہ دھماکہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا تاہم ایسے خلائی دھماکے اکثر رجسٹر ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاﹰ 2022ء میں ماہرین نے 'گیما برسٹ‘ کے باعث ہونے والا ایک بڑا خلائی دھماکہ بھی ریکارڈ کیا تھا، جسے A900122BRG کا نام دیا گیا تھا۔

یہ خلائی واقعہ حالیہ تحقیق سے سامنے آنے والے دھماکے سے زیادہ روشن تو تھا مگر اس کا دورانیہ محض دس گھنٹے تھا۔ اس کے برعکس اب جس نئے دھماکے کی تصدیق ہوئی ہے، اس کا دورانیہ تقریباﹰ تین سال تھا۔ یہ خلا میں کسی بھی روشن دھماکے کی انتہائی غیر معمولی طوالت ہے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی پہلی رنگین تصویر، کائنات کے نئے رازوں سے پردہ اٹھنے کی امید

Weltraum | Aufnahme eines schwarzen Lochs
ایم ستاسی نامی گلیکسی کے مرکز میں ایک سپر میسیو بلیک ہول کی جنوبی کوریا کے فلکیات اور خلائی سائنس کے ادارے کی جاری کردہ ایک تصویرتصویر: Yonhap/picture alliance

اس خلائی عمل کے خاص پہلو کیا؟

ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ٹیم نے ڈاکٹر فیلپ وائزمین کی سربراہی میں اس ایونٹ سے حاصل شدہ روشنی کے طیف یا سپیکٹرم کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ڈاکٹر وائزمین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ابتدائی تجزیہ ہی انتہائی حیران کن تھا کیونکہ سائنس دانوں نے اب تک زیادہ تر صرف سپرنووا دھماکے ہی ریکارڈ کیے تھے۔

سائنس دانوں نے ایک نیا عظیم الجثہ گیسی سیارہ دریافت کر لیا

ان کے باعث پیدا شدہ روشنی کے فلیشز کا دورانیہ چند گھنٹوں سے چند مہینوں تک بھی ہوتا تھا مگر اس فلیش کا اب تک ریکارڈ شدہ دورانیہ تین سال بنتا ہے۔

ڈاکٹر وائزمین کے مطابق سپرنووا دھماکے عموماﹰ چند ماہ کے لیے ہی واضح طور پر روشن ہوتے ہیں مگر زوِیکی ٹرانزیئنٹ فیسیلیٹی میں ریکارڈ شدہ دھماکہ تو کسی سپرنووا دھماکے سے بھی تین گنا زیادہ روشن تھا۔ سپرنووا دھماکہ کسی ستارے کے پھٹنے کے اس عمل کو کہتے ہیں، جو کئی اقسام کا ہو سکتا ہے۔

انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سن 2030 میں ختم کر دیا جائے گا

کیا مشتری کے چاند زندگی کے لیے موزوں ہیں؟

یہ دھماکہ ہوا کہاں؟

ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فیلپ وائزمین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فلیش سپیکٹرم کے تجزیے سے پتہ چلا کہ یہ زمین سے آٹھ بلین نوری سال کے فاصلے پر تھا اور جس وقت خلا میں یہ دھماکہ ہوا، تب ہماری کائنات  کی عمر محض چھ بلین سال تھی۔

اس ایونٹ کا زمین سے فاصلہ معلوم کر کے فیلپ وائزمین کی ٹیم نے اس دھماکے کی روشنی کی شدت سے متعلق جو اعداد و شمار اخذ کیے، وہ بھی انتہائی غیر معمولی تھے۔ ڈاکٹر وائزمین نے بتایا کہ آج تک ریکارڈ شدہ اور اتنی زیادہ روشن شے صرف ایک سپر میسیو بلیک ہول (supermassive black hole) ہی ہو سکتا ہے، جو کہ بلیک ہول کی سب سے بڑی قسم کو کہتے ہیں۔

ماضی میں جھانکنے والی غیرمعمولی اور انقلابی دوربین

ڈاکٹر وائزمین نے بتایا کہ دستیاب ڈیٹا سے یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ یہ روشن دھماکہ گیس کے کسی بہت بڑے بادل کے کسی بلیک ہول کی طرف سے نگلے جانے کے نتیجے میں ہوا ہو گا۔ اس لیے کہ جب کوئی  بلیک ہول ہائیڈروجن گیس کے کسی ایسے بادل یا سٹیلر ڈسٹ (stellar dust) کو نگلتا ہے جو اس میں انتہائی تیز رفتاری سے داخل ہو رہا ہو، تو یوں وہ بلیک ہول غیر امکانی حد تک روشن فلیش خارج کرتا ہے۔ اصطلاحاﹰ اس طرح کا فلکیاتی فلیش 'کواسار‌‘ (quasar) کہلاتا ہے۔

کہکشاؤں کے مراکز بدلنےکے عمل کا سراغ

ڈاکٹر فیلپ وائزمین کے مطابق کواسارز پر تحقیق یوں تو جاری رہتی ہے مگر گزشتہ ایک دہائی کے ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ فلکیاتی ماہرین کبھی کسی اتنی روشن شے کو ریکارڈ نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ اس طرح کے واقعات انتہائی غیر معمولی اہمیت کے حامل اور بہت ہی نایاب ہوتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان پر مزید تحقیق کر کے ماہرین یہ پتہ چلا سکیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کہکشاؤں کے مراکز کس طرح بدلتے رہتے ہیں۔

روور مریخ سے پتھر کے نمونے حاصل کرنے میں کامیاب

فیلپ وائزمین اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق رائل ایسٹرونامیکل جرنل کے اپریل سے جولائی تک کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہوئی ہے۔ اس ٹیم کو امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں نئی ویرا رُوبن آبزرویٹری کے ذریعے ایسے مزید واقعات کا کھوج لگایا جا سکے گا۔

ساتھ ہی فلکیاتی ماہرین جدید ترین کمپیوٹر ماڈلز اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں گے کہ آیا اس روشن دھماکے سے متعلق محققین کا پیش کردہ بلیک ہول اور گیس کے عظیم الجثہ بادلوں کا نظریہ درست ہے۔