1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی ایک نئی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار؟

12 مئی 2024

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی رکن ریاستیں مستقبل میں کسی نئی عالمی وبا سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ جرمنی میں بہت سے شہری یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا ان کا ملک مستقبل کی کسی ممکنہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

https://p.dw.com/p/4fhxl
Symbolbild: Krankenhaus Deutschland
تصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance

ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک عالمی وبائی معاہدے کے لیے مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بہت سے جرمن باشندے اب خود سے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آیا ان کے ملک نے  کورونا  وائرس کی گزشتہ عالمی وبا سے کافی کچھ سیکھا ہے؟

دنیا بھر میں  کورونا  وائرس کی وجہ سے لگنے والی عالمی وبائی بیماری کووڈ انیس سے بڑی حد تک نمٹا جا چکا ہے اور اب بہت سے ممالک اگلی ممکنہ عالمگیر وبا کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک ان دنوں ایک باقاعدہ معاہدے کے  مسودے کی تیاری کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

پھر ایک نئی عالمی وبا؟

بہت سے سائنسدانوں کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ آیا کوئی اگلی عالمگیر وبائی بیماری بھی آئے گی۔ اب SARS-CoV-2 کے بعد فلو وائرس، SARS-CoV-3 اور چیچک جیسی بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن کے ماکس ڈیلبروک سینٹر سے منسلک مالیکیولر بائیالوجسٹ ایمانوئل وائلر کا کہنا ہے، ''برڈ فلو نہایت تکلیف دہ ہو گا۔‘‘

''چیچک کے پھیلاؤ کے گرچہ امکانات کم ہیں، تاہم یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔‘‘ ساتھ ہی خسرے کی وبا یا پھر کثیر المزاحم بیکٹیریا، جن کی فہرست بڑی طویل ہے، کے پھیلنے کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔

Impfen am Riesenrad I Impfaktionswoche
جرمنی میں کورونا وبا کے دور میں ویکسینیشن کا سلسلہ نسبتاً دیر سے شروع ہوا تھاتصویر: Matthias Bein/dpa/picture alliance

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں، ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی متعدی بیماریوں کے تیز رفتار پھلاؤ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ حیوانات کی کثرت اور جنگلی جانوروں کے رہائشی علاقوں پر انسانوں کا قبضہ دنیا بھر میں ''ذو نوزز‘‘ کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد ایسی بیماریاں ہیں، جن کا سبب بننے والے جرثومے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو جرمنی بھی ایک نئے عالمی وبائی مرض کے پھیلاؤ کے خطرے سے دوچار ہے۔ انہی خطرات کو بھانپتے ہوئے بہت سے جرمن باشندے اب یہ پوچھنے لگے ہیں کہ آیا ان کے ملک نے بھی کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے کوئی سبق سیکھا ہے اور کیا جرمنی میں مستقبل کی ایسی کسی ممکنہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

ہسپتالوں کے مناظر

جرمنی  میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ہسپتالوں کے مناظر کی تصاویر نے نہایت خوفناک نقوش چھوڑے تھے۔ ان مناظر کے اثرات آج بھی عام لوگوں کے ذہنوں میں ہیں، جن میں انتہائی نگہداشت کے طبی یونٹوں میں کام کرنے والے کارکنوں پر انتہا سے زیادہ بوجھ اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر اراکین کی کمی کے سبب پیدا شدہ سنگین صورتحال وغیرہ سبھی کچھ شامل ہے۔ ہسپتالوں میں وبائی امراض کے پھیلاؤ کے دوران مریضوں کی دیکھ بھال کی صورتحال اسی وقت قابو میں رہے گی، جب یہ ہسپتال عام دنوں اور حالات میں بھی بھرپور اسٹاف اور سہولیات کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوں گے۔

Deutschland Corona-Pandemie | Impfpass
کورونا ویکسینیشن کا باقاعدہ دستاویزی ثبوت پیش کرنا ضروری تھاتصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/dpa/picture alliance

جرمن شہر کولون کے علاقے میرہائم میں واقع پھیپھڑوں کے امراض کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے کے ماہر معالج کرسٹیان کاراگیانیدیس کہتے ہیں، ''ہمارے پاس ہسپتال میں وہ صورتحال موجود ہی نہیں، جس کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘

جرمن ہسپتالوں کی صورت حال

جرمن ہسپتالوں میں غیر متوقع واقعات کے لیے بستروں کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ جرمنی کے تقریباً 1,700 ہسپتالوں میں سے 500 کلینک بھی کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران مریضوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکے تھے۔ باقی ماندہ شفا خانوں نے بہت ہی محدود پیمانے پر اپنا کردار ادا کیا تھا۔

کورونا وائرس کی وبا کے دوران حالات

کورونا وائرس کی وبا کے آغاز پر یعنی جون 2020ء میں وفاقی حکومت نے ''وبائی امراض کے دوران خریدے گئ ے حفاظتی آلات اور طبی آلات کو مرکزی طور پر ذخیرہ کرنے کے لیے نیشنل ہیلتھ پروٹیکشن ریزرو‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مزید مراحل میںجرمنیمیں تیار ہونے والی ادویات اور طبی آلات کے ساتھ ساتھ ریزرو میں اضافہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا، جس کا مقصد مستقبل میں ترسیل میں رکاوٹوں سے بچنا تھا۔

Coronavirus – Impfbeginn Sachsen
بائیون ٹک جرمن کمپنی نے کورونا ویکسین تیار کرنے میں پہل کی تھیتصویر: Hendrik Schmidt/dpa/picture alliance

اب چار سال گزر جانے کے باوجود یہ منصوبہ ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ دریں اثنا وہ لاتعداد حفاظتی ماسک جن کے مؤثر استعمال کے لیے مقررہ مدت ختم ہو چکی ہے، اب تلف کر دیے جائیں گے۔

جرمن ریڈ کراس نامی امدادی تنظیم میں قومی بحران کے سلسلے میں انتظامات اور صحت عامہ کے تحفظ کے ذمہ دار فلپ ویزنر کہتے ہیں، ''یہ مسائل ہمیں اگلی بار پریشان کر سکتے ہیں۔‘‘

ایک مثبت پہلو

جرمنی  میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران متعدد ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے تھے اور قلیل مدت میں ملکی آبادی کے بڑے بڑے گروپوں کو ویکسین لگانے کا کام انجام دیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا بندوبست تھا، جسے ریزرو کے طور پر رکھا جا سکتا ہے اور اسے حسب ضرورت اگلی بار دوبارہ استعمال میں لایا جا سکے گا۔

ک م/ م م (انا کارٹ ہاؤس)