1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیر میں بھی طالبات کے حجاب پہننے پر تنازعہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
9 جون 2023

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر کے اسکول کی مسلم طالبات کا کہنا ہے کہ ان سے عبایا نہ پہننے کو کہا جا رہا ہے۔ کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کو 'مذہبی معاملات میں مداخلت' قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4SMwl
Indien | Udupi town | Muslimische Schülerinnnen tragen den Hijab beim verlassen der Schule
تصویر: Sunil Kataria/REUTERS

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کا ایک اسکول اس وقت بحث کا موضوع ہے، جہاں چند روز قبل عبایا پہننے والی کئی طالبات کو کیمپس میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس پر ہنگامہ گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا جب طالبات نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ 

بھارتی مسلم طالبات نے حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت طلب کرلی

اسکول کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور طالبات نے اسکول کے باہر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے پر عمل نہیں کریں گی، چاہے انہیں گھر پر  ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

حجاب تنازع: بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کی رائے مختلف

واضح رہے کہ بھارت کی بعض دوسری ریاستوں میں پہلے بھی اس طرح کے متنازعہ فیصلوں سے ہنگامہ آرائی ہو چکی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور بالعموم طالبات حجاب یا عبایا پہنتی ہیں۔

بھارت: تنازعہ حجاب کشمیر تک پہنچ گیا، فوج نے ٹیچرز کو حجاب نہ کرنے کا حکم دیا

تازہ معاملہ کیا ہے؟

یہ معاملہ پہلی بار پانچ جون پیر کی صبح اس وقت سامنے آیا تھا، جب سری نگر کے 'وشو بھارتی ہائر سیکنڈری' اسکول کی عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اسکول پرنسپل نے ان سے یہ کہہ کر اسکول میں داخل ہونے سے منع کر دیا کہ وہ اس لباس میں اسکول نہیں آ سکتیں۔

 القاعدہ کے سربراہ کا بھارتی مسلم طالبہ کے نام تعریفی پیغام

تاہم گیارہویں اور بارہویں کلاس کی درجنوں طالبات نے جمعرات کے روز اسکول کے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ انتظامیہ نے اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے انہیں اپنے عبایہ اتارنے کو کہا ۔

بھارت میں حجاب سے متعلق عدالتی فیصلہ، مسلمانوں کی احتجاجی ہڑتال

اس حوالے سے بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، جس میں ایک طالبہ کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "جب میں جمعرات کی صبح اسکول آئی تو دربان نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم حجاب پہننے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں  اسکول کے بجائے درسگاہ (اسلامی مدرسے) میں جانا چاہیے۔"

Indien | Udupi town | Muslimische Schülerinnnen tragen den Hijab beim verlassen der Schule (Archivbild)
اسکول میں زیر تعلیم متعدد طالبات کے والدین اور کئی دیگر افراد نے اسکول کے اس فیصلے اور اس کے باہر پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہےتصویر: Sunil Kataria/File Photo/REUTERS

احتجاج سے متعلق ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں  12ویں جماعت کی ایک طالبہ ریحانہ منظور جمعرات کی صبح اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے منع کرنے پر ایک مرد سے بحث کر رہی ہیں۔ اس میں بھی عبایا پہننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

12 ویں جماعت کی ایک اور طالبہ رومیسہ جان کا کہنا تھا، "میں اسکول کے ٹاپرز میں سے ایک ہوں۔ اسکول انتظامیہ نے بدھ کو میرے والدین سے بات کی اور پھر اصرار کیا کہ ہمیں عبایا ہٹا دینا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم جینز پہنیں۔ وہ ہمیں اپنی عبایوں کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔"

 اسکول کی وضاحت

وشو بھارتی ہائر سیکنڈری اسکول سری نگر کے رینا واری علاقے میں واقع ہے، اس کی  پرنسپل نمروز شفیع نے ابتدائی طور پر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ لڑکیوں سے اسکول کے اندر ان کا عبایا ہٹانے کو کہا گیا تھا۔

تاہم ہنگامہ آرائی کے بعد نجی ملکیت والے اسکول کی انتظامیہ نے اس "غلط بیانی" کے لیے معذرت کی۔ اسکول کا کہنا ہے کہ احاطے میں عبایا پر پابندی لگانے کا کوئی انتظامی حکم نہیں تھا اور طالبات کو صرف "ڈریس کوڈ" کی پابندی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

ہنگامے کے بعد پرسنپل نے اپنے ایک بیان میں کہا، "کچھ طالبات مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ کثیر رنگوں کے عبایوں میں اسکول آتی ہیں، جو کہ اصل کے خلاف ہے۔ حجاب اسکول یونیفارم میں شامل ہے اور طالبات اسکول میں یونیفارم پہننے کی پابند بھی ہیں۔ ہم نے انہیں تین چوائسز دی ہیں۔ کوئی ان کے عبایوں کو نہیں ہٹا رہا ہے۔"

بعد میں ایک بیان میں اسکول کے پرنسپل نے یہ بھی کہا کہ طلبہ کے الزامات "مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط بیانی" پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "اسکول انتظامیہ ہمیشہ معاشرے کے تمام طبقوں کے جذبات کا احترام کرتی ہے اور ڈریس کوڈ کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ عبایا پہننے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے لیکن  شائستگی کے ساتھ طلبہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ عبایا کے نیچے اسکول یونیفارم بھی پہنیں۔"

سخت رد عمل

اسکول میں زیر تعلیم متعدد طالبات کے والدین اور کئی دیگر افراد نے اسکول کے اس فیصلے اور اس کے باہر پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔ بیشتر افراد نے اسکول انتظامیہ  پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔

ایک طالبہ کے والد عبدالمجید نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اسکول انتظامیہ کا فیصلہ "اسلام کے اصولوں کے خلاف" ہے۔ انہوں نے کہا "میں اپنی بیٹی کو عبایا پہنے بغیر اسکول جانے کی اجازت دینے کے بجائے گھر پر بیٹھنے دوں گا۔ وہ گھر میں عبایا پہنتی ہے، تو اسکول میں عبایا پہننے پر اسکول انتظامیہ کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔"

نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان تنویر صادق کا کہنا تھا کہ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہونا چاہیے اور مذہبی لباس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کرنا بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور فوری اصلاحی کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔"

کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الاسلام نے کہا کہ عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے کا کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ ادارہ پہلے، "صرف لڑکیوں کا اسکول تھا جسے اب مخلوط تعلیم کے ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔"

حجاب رکاوٹ نہیں تو اسے رکاوٹ بنایا کیوں جا رہا ہے؟