1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستایران

ایران میں مظاہرے، اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن

21 دسمبر 2022

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی چھان بین کے مشن کے لیے تین ارکان کو مقرر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4LH5A
Mexiko Proteste gegen die Hinrichtungen in Iran vor der Botschaft in Mexico City
تصویر: Gerardo Vieyra/NurPhoto/picture alliance

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کے مشن کے لیے تین ارکان کو مقرر کر دیا ہے۔ اس تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ مشن کی تمام اراکین خواتین ہیں، جو ایران میں ستمبر سے جاری مظاہروں اور جواب میں سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن سے متعلق چھان بین کریں گی۔

ایران کا اقوام متحدہ خواتین حقوق کمیشن سے اخراج

ایران: مظاہروں کو کچلنے کے لیے کرد شہر پر فوجی کارروائی

اس آزاد اور خودمختار مشن کی ارکان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی شاہین سردار، ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والی واویانا کرسٹیچیویچ اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی سارا حسین شامل ہیں۔

اس مشن کا کام ایران میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے جڑے شواہد کا تجزیہ کرنا اور انہیں محفوظ کرنا ہے۔ ان میں وہ شواہد بھی شامل ہیں جو قانونی کارروائی میں مدد دے سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کونسل کا فیصلہ

رواں برس نومبر میںاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسلنے ایران میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں سے متعلق ایک قرارداد پر ووٹنگ کرائی تھی۔ اس قرارداد میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کونسل کے سینتالیس میں سے پچیس ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، چھ نے مخالفت کی تھی جب کہ سولہ ممالک نے اپنے ووٹ کا حق محفوظ رکھا تھا۔

تہران نے اس اقدام کو داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کمشین کو ملک تک رسائی نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔

ایران میں غیرمعمولی مظاہرے

 ایران میں ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کو ایرانی اخلاقی پولیس نے 'نامناسب لباس‘ پہنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ ایرانی حلقوں کے مطابق مہسا امینی کو فقط 'ہیڈاسکارف نہ پہننے‘ کے معاملے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ یہ لڑکی سولہ ستمبر کوایران کی اخلاقی پولیسحراست میں ہلاک ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھر میں خواتین کی آزادی اور ملک میں مذہبی حکومت کے خلاف غیرمعمولی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے زبردست کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا، تاہم یہ مظاہرے بدستور جاری ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اب تکان مظاہروں میں شامل پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایران میں انٹرنیٹ کی بندش سے ملکی معیشت متاثر

پاکستانی رکن پر تنقید

اس کریک ڈاؤن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین کے لیے طے کردہ عالمی مشن میں پاکستانی خاتون شاہین سردار کو شامل کرنے پر سوشل میڈیا پر کئی حلقے تنقید بھی کر رہے ہیں۔ اس تنقید کی وجہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کونسل میں اس مشن کے قیام پر ہونے والی وونٹنگ میں پاکستان نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا تھا۔ پاکستانی حکومت ایران کے لیے ایسے کسی مشن کی مخالفت کرتی ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مشن کے لیے انتہائی اعلیٰ قابلیت کے حامل اور غیرجانبدار ارکان کی تقرری کی گئی ہے۔

ع ت، ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)