1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

یوکرینی جنگ کا ایک برس، پوٹن نے زیلنسکی کو سنجیدہ نہیں لیا

24 فروری 2023

یوکرین میں روس کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کو ایک برس کا عرصہ مکمل ہو گیا ہے لیکن ماسکو حکومت اپنے مطلوبہ عسکری اہداف بھی تک حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اس جنگ میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا عزم پہاڑ ثابت ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4NvtG
Ukraine | Gedenkveranstaltung zum 1. Jahrestag des russischen Angriffs auf die Ukraine - Wolodymyr Selenskyj
تصویر: Ukrainian Presidential Press Office via AP/picture alliance

آج 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کئی ہفتوں تک اپنی افواج یوکرینی سرحد پر جمع رکھنے کے بعد آج سے ٹھیک ایک برس قبل مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے سے کچھ پہلے یوکرین میں  'ملٹری آپریشن'  کا اعلان کیا تھا۔

اس موقع پر پوٹن نے مغربی ممالک کو یوکرین کی مدد کرنے باز رہنے کو کہا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اس کے ناقابل مثال نتائج نکل سکتے ہیں۔ تاہم روس کی طاقتور فوج یوکرینی صدر زیلنسکی کے حوصلے پست نہ کر سکی۔

صدر زیلنسکی ہی تھے، جنہوں نے ملکی فوج اور عوام کو ایک نئی امید دی۔ اس سال میں انہوں نے ہر روز ہی کوئی نہ کوئی پیغام جاری کیا، جن میں سے کچھ میں فوج کے حوصلے بلند کیے تو کچھ میں عوام کو متحد رہنے کی تاکید کی۔ یہی پیغامات تھے، جن میں زیلنسکی نے مغربی ممالک سے اسلحہ مانگا تاکہ وہ روسی حارحیت کا مقابلہ کر سکیں۔

روسی یوکرینی جنگ کا ایک سال: قیام امن کب تک اور کیسے ممکن؟

یوکرینی جنگ ختم ہونا چاہیے، جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور

جب روس نے حملہ کیا تھا تو کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ صدر پوٹن کی فوج جلد ہی یوکرین پر قبضہ کر لے گی۔ تاہم مغربی ممالک کی طرف سے عسکری مدد اور صدر زیلنسکی کا عزم کریملن کے منصوبوں کے آڑے آ گیا۔

جرمن جنگی ٹینکوں کے لیے یوکرینی فوجیوں کی تربیت

روسی حملے کے پہلے دن یعنی 24 فروری 2022ء کو زیلنسکی نے کہا کہ ملک کا بچہ بچہ اپنے وطن کا دفاع کرے گا۔ اپنے جذباتی خطاب میں انہوں نے فوج کو روس کی طاقتور سمجھے جانے والی فوج کے سامنے لا کھڑا کیا۔

اس سال میں زیلسنکی اور ان کی کابینہ دارالحکومت کییف میں ہی رہی۔ اس وقت بھی زیلنسکی نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، جب ایک وقت روسی افواج کییف کی سرحدوں تک پہنچ گئی تھیں۔ تاہم یوکرینی عوام اور فوج نے مل کر ان محاذوں پر روسی فوج کو پسپا کر دیا۔

صدر زیلنسکی ہی تھے، جن کا عزم دیکھتے ہوئے مغربی ممالک نے کییف حکومت کے ساتھ ہر حوالے سے تعاون کیا۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک نے یوکرین کا جدید فوجی سازوسامان بھی فراہم کیا اور عالمی فورمز پر یوکرین کی سالمیت اور خودمختاری کی حمایت بھی کی۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو سنجیدہ نہیں لیا۔ زیلنسکی باقاعدہ سیاستدان نہیں ہیں۔ سن 2019ء کے صدارتی الیکشن میں ان کی جیت ایک حیرت انگیز پیش رفت تھی۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ ایک پروفیشنل ایکٹر، پروڈیوسر اور کامیڈین اس الیکشن میں کامیاب ہو جائے گا۔

روسی یوکرینی جنگ: پوٹن کی جوہری طاقت میں اضافے کی دھمکی

'یوکرین مضبوطی سے قائم اور آزاد ہے'، جو بائیڈن

تاہم روسی حملے کے ایک برس مکمل ہونے پر زیلنسکی ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر ابھر چکے ہیں۔ انہوں نے ہر مشکل وقت میں نہ صرف سمجھوتوں سے انکار کیا بلکہ مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک حقیقی سپاہ سالار کی طرح اس جنگ کی کمان سنبھال رکھی ہے۔

بے شک اگر صدر زیلنسکی اس روسی حملے کے بعد ہمت ہار جاتے اور ماسکو حکومت کے آگے جھک جاتے تو یہ تنازعہ شاید کب کا ختم ہو چکا ہوتا اور روس بالخصوص یورپ میں اپنے عسکری عزائم کو مزید وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہوتا۔ تاہم زیلنسکی کی وجہ سے ہی صورتحال آج مختلف ہے۔

رومان گونچارینکو (ع ب/ا ب ا)

یوکرین کو ٹینک کیوں چاہیے ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید