1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیکٹ چیک: یوکرینی مہاجرین کو کیسے بدنام کیا جاتا ہے؟

17 فروری 2023

سوشل میڈیا پر یوکرینی مہاجرین کو ناشکرے، خطرناک اور مفت خور قرار دیا جاتا ہے۔ اس فیکٹ چیک میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے حربے اکثر گمراہ کن کیوں ہوتے ہیں اور ہم ایسے غلط بیانیے کی پہچان کیسے کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Nf7m
Polen | Ukrainische Flüchtlinge
تصویر: Artur Widak/NurPhoto/picture alliance

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے دیگر یورپی ممالک نے 80 لاکھ سے زائد یوکرینی شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ زیادہ تر ممالک میں یوکرینی مہاجرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور کھلے دل سے ان کا استقبال کیا گیا۔

تاہم انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک ڈائیلاگ (آئی ایس ڈی) کی جولیا سمرنووا کہتی ہیں کہ یوکرینی مہاجرین کے بارے میں جھوٹی خبریں، نفرت اور غلط معلومات پھیلانے کی مہم بھی چلائی گئی۔ غلط معلومات پھیلانے والی رپورٹوں میں زیادہ تر ’’مہاجرین سے منسوب مبینہ جرائم یا حملوں کے بارے میں جھوٹی خبریں شامل تھیں۔‘‘

آئی ایس ڈی کے ایک تجزیے کے مطابق، جس میں خاص طور پر ٹیلی گرام پر مہاجرین کے بارے میں روسی زبان میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیا گیا، بیانیے کا انحصار ٹارگٹ گروپ پر تھا۔ روسی صارفین کو بنیادی طور پر بتایا جاتا ہے کہ یوکرینی شہری مبینہ طور پر ملک پر حکمرانی کرنے والے ’نازیوں‘ کے خوف سے وطن چھوڑ رہے ہیں۔

سمرنووا بتاتی ہیں کہ دوسری جانب یورپی صارفین کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یوکرینی مہاجرین ناشکرے، پرتشدد اور خطرناک ہیں۔ ایسے جھوٹے بیانیے پر مبنی متعدد مثالیں یورپین ڈیجیٹل میڈیا آبزرویٹری (ای ڈی ایم او) کی فیکٹ چیکنگ کمیونٹی نے بھی جمع کی ہیں۔ یہ ادارہ حقائق کی جانچ کرنے والوں اور میڈیا ماہرین کا ایک یورپی نیٹ ورک ہے، اور ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیکنگ ٹیم بھی اس کی رکن ہے۔

روسی میڈیا مستند مغربی میڈیا کے حوالے دے کر فیک نیوز کی تشہیر کرتا ہہے
روسی سٹیٹ میڈیا مستند مغربی میڈیا کے حوالے دے کر فیک نیوز کی تشہیر کرتا ہہےتصویر: news-front.info

اس طرح کی مثالوں کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکتا ہے کہ مخصوص بیانیہ کیسے پھیلایا جا رہا ہے اور اس کی اصلیت کا پتا کیسے چلایا جا سکتا ہے۔

کییف میں نازی حکومت سے فرار؟

دعویٰ: یوکرینی شہری نازیوں کے خوف سے ترک وطن کر رہے ہیں۔

یوکرین پر حملے سے پہلے بھی روسی پروپیگنڈا میڈیا نے بار بار یہ دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین میں نازی برسراقتدار ہیں جو یوکرین سے ہر روسی چیز کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اس دعوے کے مطابق، یہ ایک منطقی نتیجہ ہو گا کہ یوکرینی شہری، خاص طور پر روسی زبان بولنے والے، ان سے بھاگ کر روس کا رخ کریں گے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباﹰ 30 لاکھ یوکرینی شہری ملک چھوڑ کر روس جا چکے ہیں۔

نیوز سائٹ نیوز فرنٹ کی رپورٹ میں یوکرین کے ایک فوجی کے حوالے سے نیویارک ٹائمز کو بتایا گیا: ’’ہم علاقے آزاد کرا رہے ہیں، لیکن ان علاقوں میں لوگ نہیں ہیں۔‘‘ اسے جواز بنا کر یہ تاثر پیش کیا گیا کہ یوکرینی شہری مبینہ طور پر 'نازی حکومت‘ سے بچنے کے لیے ان دوبارہ قبضہ شدہ علاقوں سے فرار ہو گئے۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: گمراہ کن۔

نیو یارک ٹائمز کی دو رپورٹوں میں لکھے گئے اس بیان کو تو مکمل طور پر تحریر کیا گیا لیکن درحقیقت اس میں کہیں بھی نازیوں کی وجہ سے ہجرت کا ذکر نہیں ہے۔ ایک بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ روسی قبضے والے علاقوں میں مقیم یوکرینی شہری اس خوف سے روس کی جانب ہجرت کر گئے کہ انہیں روسیوں کا ساتھی نہ سمجھ لیا جائے۔

دوسرے مضمون میں شامل بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی فوج کے آنے سے پہلے ہی ڈونباس کی 80 فیصد آبادی ان کے خوف سے مغربی یوکرین یا یورپ کے دیگر ممالک کی جانب چلی گئی تھی۔ علاوہ ازیں روسی افواج نے لڑائی کے دوران یا ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں نامعلوم تعداد میں یوکرینی شہریوں کو ہلاک بھی کیا تھا۔

Kombobild Faktencheck

یقیناﹰ، یہ بات بھی بعید از امکان نہیں کہ ایسے یوکرینی شہری بھی ہیں جو روسی پروپیگنڈے پر یقین رکھتے ہیں اور مبینہ ’نازی حکومت‘ سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ امکان بالکل نہیں کہ یوکرینی مہاجرین کی بڑی تعداد ایسے پروپیگنڈے پر یقین رکھتی ہو گی۔ کیونکہ یہ کہانی کہ یوکرین پر ’نازیوں‘ کی حکومت ہے یا ہو گی، ایک گھڑا ہوا قصہ ہے۔ اس حقیقت کو ہم ایک گزشتہ فیکٹ چیک رپورٹ میں ثابت بھی کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ بہت سے یوکرینی شہری اپنی مرضی کے خلاف روس لے جائے گئے ہیں۔ امریکی حکومت کے مطابق ایسے یوکرینی باشندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق روسی یا روس نواز فوجی یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سے یوکرینی شہریوں کو بسوں میں سوار کرا کے روس لے گئے۔ ان میں سوار افراد کو یا تو معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا تھا یا پھر ان پر دباؤ ڈال کر انہیں لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک نامعلوم تعداد ایسے یوکرینی شہریوں کی بھی ہے جو روس سے ہوتے ہوئے مغربی ممالک کی جانب روانہ ہوئے تھے۔

ہم نے نومبر کے آخر میں ایک اور فیکٹ چیک میں دکھایا تھا کہ کس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ’یوکرینی نازیوں‘ جیسی من گھڑت کہانی کو حقیقت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

فیک نیوز پھیلانے کا طریقہ

ایسے میڈیا اداروں کا حوالہ دینا جنہیں مغربی دنیا میں قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے، یہ طریقہ تسلسل سے اختیار کیا جا رہا ہے۔ سمرنووا کے مطابق مستند میڈیا کو کاپی کر کے صارفین کو دھوکہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ غلط معلومات کو قابل اعتماد سمجھ لیں۔ یہ تکنیک یوکرینی مہاجرین کو بدنام کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

دعویٰ: یوکرینی مہاجرین مقامی افراد سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔

دیگر مثالوں کی طرح ڈی ڈبلیو کی ایک مبینہ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نوجوان یوکرینی مرد نے متعدد جرمن خواتین کو بلیک میل کیا۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: غلط

اس بارے میں ہم ایک فیکٹ چیک رپورٹ پیش کر چکے ہیں، اس لیے یہاں ہم مختصرا تحریر کر رہے ہیں۔ جرمنی کے فیڈرل کریمنل پولیس آفس (بی کے اے) کو اس طرح کے کسی معاملے کا علم نہیں ہے۔ ہم ویڈیو میں استعمال کردہ فونٹ کی تحریف اور لے آؤٹ کی ترتیب کے ذریعے یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ ویڈیو ڈی ڈبلیو کی نہیں ہے، بلکہ جعلی ہے۔

کیا یوکرینی مہاجرین کے ساتھ مقامی آبادی سے بھی بہتر سلوک کیا جاتا ہے؟

فیک نیوز ایکسپرٹ ٹاماسو کینیٹا کے مطابق، ’’یوکرینی مہاجرین کو کئی سطحوں پر غلط معلومات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ نازی ہیں، پرتشدد ہیں، پیراسائٹس ہیں۔ بنیادی طور پر وہ میزبان ممالک کا استحصال کرتے ہیں۔‘‘ اس مقصد کے لیے مختلف من گھڑت کہانیاں بنائی جاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے انہیں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

دعویٰ: کینسر میں مبتلا پولش بچوں کو یوکرینی مہاجرین کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی

پولش فیکٹ چیکنگ پلیٹ فارمز ’فیک ہنٹر‘ اور 'ڈیماگوگ‘ نے اس الزام کی تحقیقات کیں۔ رپورٹ کے مطابق پولینڈ کی وزارت صحت اور پولش سوسائٹی آف پیڈیاٹرک اونکالوجی اینڈ ہیماٹولوجی (پی ٹی او ایچ ڈی) نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اس ادارے نے کہا کہ ایک ٹویٹ کے علاوہ پولینڈ کے میڈیا میں اس مبینہ واقعے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔

Screenshot Tweet | Faktencheck
تصویر: archive.ph/sJFYy/twitter.com/Aga34686913

لہٰذا ممکنہ طور پر یہ بھی فرضی کہانی ہے۔ اسے شیئر کرنے والا بھی قابل اعتبار نہیں، ٹویٹر پروفائل @aga34686913  نے خود اپنے آپ کو 'کیتھولک، قدامت پسند‘ ظاہر کر رکھا ہے۔ یہ اکاؤنٹ مارچ 2021 میں بنایا گیا تھا اور اس کے بعد سے پالیسی کی خلاف ورزیوں کے سبب اسے بلاک کر دیا گیا تھا۔ تاہم، ویب آرکائیو سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 21 مارچ اور 28 مارچ، 2022 کے درمیان اس پروفائل کے ذریعے تقریبا 100 ٹویٹس بھیجی گئیں یا ری ٹویٹ کی گئیں۔

ان میں ایک بڑا حصہ قوم پرست اور یوکرین مخالف مواد پر مبنی تھا۔ اس اکاؤنٹ سے کی گئی بہت سی ٹویٹس @Michali49393358 ہینڈل سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یہ سب اشارے ہیں کہ یہ ایک ٹرول ہوسکتا ہے ، یعنی ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ جو صرف گمنام طور پر کچھ مواد پھیلانے کا کام کرتا ہے۔ اکثر انہیں بوٹس، کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جو خود بخود متعلقہ مواد کی شناخت اور دوبارہ تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں ہم دکھاتے ہیں کہ بوٹس، جعلی اکاؤنٹس اور ٹرولز کو کیسے پہچانا جائے۔

پولش فیکٹ چیکرز کو پتہ چلا کہ پروفائل فوٹو سب سے پہلے 2017 میں @annikaboron انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی تھی۔ اس اکاؤنٹ کے ایک لاکھ 39 ہزار فالورز ہیں اور یہ انیکا بورون کا پروفائل ہے جو ٹورانٹو میں ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اپنی تصویر کے ساتھ پولش ٹوئٹر پروفائل کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے ڈی ڈبلیو کو جواب دیا: ’’میرا یقینی طور پر اس اکاؤنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میری تصویر اکثر جعلی پروفائلز کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‘‘

کیا یوکرینی مہاجرین ناشکرے اور غیر مہذب ہیں؟

فیک نیوز پھیلانے کی ایک اور تکنیک یہ ہے کہ مستند تصاویر کو کسی اور سیاق و سباق میں پیش کیا جاتا ہے۔ خارکیف میں آگ بجھانے کے آپریشن کی ایک ویڈیو کی مثال لے کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کام کتنی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

دعویٰ: یوکرینی مہاجر خاندان پولیس کو زبردستی ایسے اپارٹمنٹ سے نکال رہا ہے جس کا اس خاندان نے کرایہ نہیں دیا۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: گمراہ کن۔

دسمبر 2022 کے اوائل سے روسی، پولش اور جرمن اکاؤنٹس پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یوکرین سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر خاندان کو پولیس نے فائر فائٹرز کی مدد سے خارکیف کے ایک ایسے اپارٹمنٹ سے بےدخل کیا جس پر انہوں نے زبردستی قبضہ کر رکھا تھا اور مبینہ طور پر کرایہ بھی ادا نہیں کیا تھا۔

ویڈیو میں صرف یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ دو فائر فائٹرز ایک پرانی عمارت کی دوسری منزل کی کھڑکی سے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی افراد یہ واقعہ دیکھ رہے ہیں اور پس منظر میں پولش اور ہسپانوی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

کییف میں قائم صحافتی پلیٹ فارم ’سٹاپ فیک‘ کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ مکمل ویڈیو اکتوبر 2021 کے اوائل میں یوٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی تھی، جو یوکرین پر روسی حملے سے چار ماہ قبل تھی۔ لہٰذا اس آپریشن کا یوکرینی مہاجرین سے کوئی تعلق نہیں۔

جرمن اکاؤنٹ پہلی نظر میں کافی مستند لگتا ہے۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹوئٹر ہینڈل @Stadler05922751  میں پہلے ذکر کردہ دو پروفائلز کی طرح ہی کا پیٹرن ہے: ایک نام جس میں ہندسوں کی ایک لمبی ترتیب ہے،  قریبی جائزہ لینے پر دکھائی دیتا ہے کہ پروفائل تصویر کسی نجی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی نہیں دکھائی دے رہی۔ یہ انٹرنیٹ پر اکثر استعمال ہونے والی ایک تصویر ہے۔ یہ ایک اشتہار سے لی گئی ہے۔ ٹوئٹر پروفائل میں ظاہر کردہ مبینہ ’میکس اسٹیڈلر‘ کے GETTR اکاؤنٹ میں شامل تصاویر میں بالکل مختلف شخص دکھائی دیتا ہے۔

کیا یوکرینی مہاجرین جرائم پیشہ یا پرتشدد ہیں؟

اس بیانیے کو مزید بڑھانے کے لیے ایسی کہانیاں پھیلائی جاتی ہیں جن میں یوکرینی باشندے مبینہ طور پر مقامی لوگوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کینیٹا بتاتے ہیں، ’’ہو سکتا ہے کہ کسی یوکرینی شہری کی روم، پیرس یا برلن میں کسی کو پیٹتے ہوئے پرانی تصاویر استعمال کی جائیں۔ اس طرح کا پراپیگنڈا خاص طور پر مستند نظر آتا ہے جب اسے غصے یا خوف کے باعث حقیقی لوگوں کے اکاؤنٹس کے ذریعے لاپرواہی سے شیئر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

دعویٰ: یوکرینی باشندوں نے مہاجرین کی مدد کرنے والے روسی نژاد مددگار کو مار دیا

ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں ایک خاتون نے روسی زبان میں اطلاع دی کہ کولون کے قریب اوئسکِرشن کے شہر میں یوکرینی مہاجرین نے روسی بولنے والے ایک 16 سالہ ریفیوجی ہیلپر کو مارا پیٹا اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گیا۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: غلط۔

ہم نے اس کہانی کا جائزہ ایک گزشتہ فیکٹ چیک میں بھی لیا تھا۔ یہ کہانی فرضی نکلی۔ خاتون نے اسے اپنے ایک جاننے والے سے سنا تھا اور جذباتی ہو کر اسے ٹک ٹاک پر پھیلا دیا تھا۔ پولیس کے مطابق بھی ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔

علاقے کے آس پاس کے ہسپتال بھی اس طرح کے کسی معاملے کی تصدیق کرنے سے قاصر رہے تھے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد خاتون نے ایک اور ویڈیو میں معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ بظاہر غلط معلومات کا شکار ہوئی تھیں۔

جان ڈی والٹر (ش ح / م م)