1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپ کے آخری آمر‘ کی اپنا اقتدار بچانے کی کوششیں

23 اگست 2020

بیلاروس کے صدر کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ متنازعہ انتخابات سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ملکی سرحدوں پر جمع ہو رہی ہیں۔ نیٹو نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hMzA
Russland Sotschi Alexander Lukaschenko und Waldimir Putin
تصویر: Reuters/S. Chirikov

بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں اتوار کے دن بھی حکومت مخالف مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ نو اگست کے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ گزشتہ چھبیس برسوں سے اقتدار پر قابض صدر لوکاشینکو صدارتی عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ناقدین لوکا شینکو کو 'یورپ کا آخری آمر‘ بھی قرار دیتے ہیں۔

تاہم صدر لوکاشینکو نے عوامی مطالبات مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ غیر ملکی عناصر بیلاروس میں انتشار چاہتے ہیں۔ اتوار کے دن ہی انہوں نے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ ملکی سرحدوں پر 'غیر ملکی طاقتیں جمع ہو رہی ہیں‘۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے کہ نیٹو کے فوجی بیلاروس کے ساتھ سرحد کے قریب جمع ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: یورپی یونین نے بیلاروس کے انتخابی نتائج مسترد کردیے، پابندیاں عائد کرنے کا اعلان

اپنے اس خطاب کے دوران فوجی وردی میں ملبوس لوکاشینکو نے کہا کہ انہوں نے ملکی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سابق کمیونسٹ ریاست کو روس کی حمایت حاصل ہے۔ ناقدین کے مطابق پینسٹھ سالہ لوکاشینکو کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کی وجہ یہی حمایت ہے۔

ہفتے کے دن پولینڈ کے ساتھ سرحد کے قریب واقع مغربی شہر گرودنو میں ایک چھاؤنی میں فوجی دستوں سے اپنے خطاب میں لوکاشینکو نے کہا تھا کہ غیر ملکی طاقتیں ملک میں 'انقلاب‘ لانے کی کوشش میں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فوج کو حکم دے دیا تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

Weißrussland | Alexander Lukashenko besucht Militätübungsplatz nahe Grodno
صدر لوکاشینکو نے ملکی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہےتصویر: Reuters/BeITA

لوکاشینکو نے فوج سے کہا کہ وہ ملکی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کرتے ہوئے ان سازشوں کو ناکام بنا دے۔ اتوار کے دن حکومت نے یہ بھی کہا کہ سرحدوں کی نگرانی کے علاوہ شہروں میں حساس مقامات کی حفاظت کے لیے بھی فوجی تعینات کی جائے گی۔ ایک بیان کے مطابق ملک میں کسی بھی یادگار کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ادھر اپوزیشن کی خاتون رہنما سَویتلانا تیخانوفسکایا نے کہا ہے کہ بیلاروس کے عوام لوکاشینکو کو کبھی بھی صدر تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس روس نواز صدر کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں دوبارہ الیکشن منعقد کرائے گئے تو وہ ان میں حصہ نہیں لیں گی۔

یہ بھی پڑھیے:’آزادی مارچ‘ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک، صدر کا ’آمرانہ‘ اقتدار خطرے میں

نو اگست کے متنازعہ صدارتی الیکشن میں وہ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کی اہم حریف تھیں۔ صدر لوکاشینکو کی کامیابی کے بعد تیخانوفسکایا سیاسی انتقام سے بچنے کی خاطر ہمسایہ ملک لیتھوانیا چلی گئی تھیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر منسک میں ایک لاکھ افراد نے احتجاج کیا تھا، جو اس ملک کی جدید تاریخ میں سب سے بڑا حکومت مخالف مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں