1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمجرمنی

ہنرمند افراد کی کمی، جرمن اداروں کو مشکلات کا سامنا

4 ستمبر 2022

جرمنی کے پیشہ ورانہ یا ٹیکنیکل تعلیمی نظام پر کئی ترقی یافتہ ممالک بھی رشک کرتے ہیں لیکن اب اس ملک کو تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی بھی کمی کا سامنا ہے، جس کے اس کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/4GJdT
Frauenquote I Boys Clubs und Equal Pay
اس ملک میں ٹرینیز کی شدید کمی واقع ہو چکی ہےتصویر: Monkey Business/imago images

سن 2014ء میں امریکی میگزین 'دا اٹلانٹک‘  نے جرمنی کے اپرنٹس شپ سسٹم کی تعریف کرتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا ''جرمنی اپنے کارکنوں کو تربیت دینے میں اتنا بہتر کیوں ہے؟‘‘ اس مضمون کے متن میں مزید لکھا گیا تھا کہ جرمنی کا یہ نظام اس قدر بہترین ہے کہ دنیا اس پر حسد کرتی ہے۔

مضمون میں مزید کہا گیا تھا، ''اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس ملک میں اپرنٹس شپس اس قدر مقبول ہیں۔‘‘ اس وقت لکھا گیا تھا، ''مانہائم میں جان ڈیئر پلانٹ میں تربیت کے لیے فقط 60 سیٹیں ہیں لیکن ہر سال وہاں تقریباﹰ تین ہزار نوجوان اپلائی کرتے ہیں۔ ڈوئچے بینک فرانکفرٹ میں 425 سیٹیں ہیں لیکن درخواستوں کی تعداد 22 ہزار ہے۔‘‘

لیکن اس مضمون کے شائع ہونے کے آٹھ برس بعد جرمنی کے طویل عرصے سے کام کرنے والے ٹیکنیکل نظامِ تعلیم کا مستقبل کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آ رہا۔ اب اس ملک میں ٹرینیز کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔

ایسوسی ایشن آف جرمن چیمبرز آف انڈسٹری اینڈ کامرس نے حال ہی میں 15 ہزار کمپنیوں کو شامل کرتے ہوئے ایک سروے کروایا تھا، جس کے مطابق سن 2021ء میں  42 فیصد کمپنیاں اپنی تمام اپرنٹس شپ اسامیوں کو پُر کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس سروے میں مزید کہا گیا تھا کہ ملک میں تربیت یافتہ افراد کی کمی ''ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح‘‘ پر ہے۔

جرمن اکنامک انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ سن 2021ء  میں اپرنٹس شپ کی چار لاکھ تہتر ہزار آسامیاں پُر ہوئیں، جو کہ 2013ء کے مقابلے میں 10 فیصد کم ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کمی کے جرمنی کی لیبر مارکیٹ پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔

جرمن اکنامک انسٹی ٹیوٹ کی سینئر ماہر اقتصادیات ریگینا فلاکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جرمن اقتصادی ماڈل ہنر مند کارکنوں اور خاص طور پر ٹیکنیکل تعلیمی نظام کے درمیان ربط پر مبنی ہے۔  ہنر مند کارکنوں کی کمی کے بدترین نتائج یہ نکلیں گے کہ کمپنیاں بند ہونا شروع ہو جائیں گی، متعلقہ سپلائی چینز کا خاتمہ ہو گا اور آخر کار جرمنی کی اختراعی صلاحیت میں کمی واقع ہو گی۔‘‘

جرمنی کو گزشتہ کئی برسوں سے ہنر مند کارکنوں کی کمی کا سامنا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں پیدا ہونے والے کارکنوں کی تیزی سے ریٹائرمنٹ ہے۔ اس دور کو جرمنی میں ''بے بی بومر نسل‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس نے بعدازاں جرمنی کی لیبر مارکیٹ میں قدم رکھے۔

اب جرمنی میں ہر سال تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار کارکن افرادی قوت چھوڑ رہے ہیں یعنی ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن ان کی جگہ لینے کے لیے کافی نئے ورکر نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرمنی میں گزشتہ کئی عشروں سے شرح پیدائش میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمن نوجوانوں کے لیے تکنیکی نظام تعلیم وقت کے ساتھ ساتھ کم پرکشش ہوتا جا رہا ہے۔

جرمنی میں ووکیشنل ٹریننگ کی وجہ سے ہزاروں پناہ گزین ملک بدری سے بچ گئے

اب جرمن حکومت بھی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی نئی مخلوط حکومت کے  معاہدے میں بھی ایک خاص سیکشن شامل کیا گیا ہے، جس کا مقصد جرمنی میں پیشہ ورانہ تربیت کو مزید پرکشش بنانا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق اس مقصد کے لیے کمپنیوں کو نہ صرف تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو گا بلکہ کام کے حالات اور ورک پلیس میں بھی بہتری لانا ہو گی۔

آرتھر سلیوان ( ا ا / ع آ)

جرمنی کو لاکھوں غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت