1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجنوبی افریقہ

نسلی تعصب کے خاتمے کے 30 برس بعد جنوبی افریقہ کہاں کھڑا ہے؟

27 اپریل 2024

جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کے خاتمے کو تیس برس بیت گئے لیکن اس افریقی ملک میں اب بھی معاشرتی سطح پر ایک تقسیم دیکھائی دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سماجی و سیاسی تقسیم کے باوجود یہ افریقی ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔

https://p.dw.com/p/4fFkY
Young people could vote for change in South Africa
تصویر: DW

جنوبی افریقہ میں ٹھیک تیس برس قبل ستائیس اپریل سن 1994 کو پہلی مرتبہ سیاہ فام ووٹر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جس کی بدولت نیلسن منڈیلا اس افریقی ملک کے صدر منتخب کیے گئے۔ 

انگریز راج کے دوران ستائیس برس جیل میں رہنے والے جنوبی افریقی سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا اور دیگر سیاہ فام رہنماؤں کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں اس ملک میں ریاستی سطح پر رائج نسلی امتیاز کا خاتمہ ممکن ہوا۔

جنوبی افریقہ میں جمہوری دور شروع ہوا اور نیلسن منڈیلا صدر بن گئے۔ منڈٰیلا کی سیاسی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) نے ملک میں ترقی اور سماجی سطح پر تبدیلیوں کا آغاز کیا۔

لیکن آج تیس برس بعد جنوبی افریقہ میں عوام اے این سی سے مایوس نظر آتے ہیں اور سیاسی تقسیم بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان تیس برسوں میں جنوبی افریقہ میں امیر اور غریب کے مابین فرق بھی بڑھا ہے حالانکہ اے این سی نے سن 1994 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس مسئلے کے حل کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔

نسلی امتیاز کے خلاف طاقتور آواز، ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے

جنوبی افریقی الیکشن: اے این سی کی فتح ’نیلسن منڈیلا کے نام‘

قانون سازی اہم ہے

جنوبی افریقہ میں اگرچہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران عملی طور پر زیادہ تبدیلی نہیں دیکھی گئی لیکن قانون سازی ضرور ہوئی ہے۔ قانونی ماہرین اس پیش رفت کو طویل المدتی بنیادوں پر اہم قرار دیتے ہیں۔

جوہانسبرگ میں واقع روزا لکسمبرگ فاؤنڈیشن میں سدرن افریقہ کے ڈائریکٹر فریڈسن گولیگیو کے مطابق یہ ملک اس عرصے میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ پروگریسیو آئین کو متعارف کرانے میں کامیاب ہوا ہے، ''ملک میں آزاد عدلیہ، فری پریس اور صاف و شفاف الیکشن کو یقینی بنایا گیا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں فریڈسن نے مزید کہا کہ جنوبی افریقہ میں مختلف جنسی میلانات و رحجانات کے حامل افراد کے حقوق کے تحفظ پر بہت کام ہوا ہے جبکہ غریب کمیونٹی میں ایجوکیشن سسٹم میں بہتری، سوشل ہاؤسنگ اور سوشل سروسز میں بھی بہتری ہوئی ہے۔

بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ

جنوبی افریقہ میں گزشتہ تین عشروں کے دوران سول سوسائٹی بھی مضبوط ہوئی ہے اور انسانی حقوق کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے۔

تاہم حالیہ عرصے میں جنوبی افریقہ میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جانے لگا ہے۔ حکمران پارٹی اے این سی میں بھی طاقت کی کشمکش اور بدعنوانی کے کئی اسکنڈلز سامنے آ چکے ہیں۔

ساتھ ہی بے روزگاری، جرائم میں اضافہ، مہنگائی اور غربت جنوبی افریقہ کے لیے بڑے مسائل بنتے جا رہے ہیں۔ فریڈسن کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری تمام مسائل کی جڑ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چونتیس برس سے کم عمر کی نصف آبادی کے پاس ملازمت نہیں ہے، ''یہی بات سماجی عدم استحکام، غیر ملکیوں کے خلاف نفرت آمیز جذبات اور جرائم کی وجہ ہے۔‘‘

عوام میں سیاست سے مایوسی

گزشتہ کچھ برسوں سے حکمران سیاسی جماعت اے این سی  کی عوام مقبولیت میں کمی نوٹ کی جا رہی ہے جبکہ کچھ ناقدین کے بقول یہ پارٹی عوام میں اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے سماجی سطح پر غصے اور دیگر معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

اس ملک میں مئی میں الیکشن ہونا ہیں، جس میں صدر سیرل رامافوسا دوسری مدت صدارت کے لیے میدان میں ہوں گے۔ تاہم موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ اے این سی اپنے قیام کے بعد کسی صدارتی الیکشن میں پچاس فیصد عوام حمایت حاصل کرنے میں پہلی مرتبہ ناکام ہو سکتی ہے۔

منڈیلا اکیسویں صدی کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت تھی: اوباما

جنوبی کوریا میں نسلی تعصب کا پہلا مقدمہ

ماہر معاشیات ڈینیل سیلکے کے مطابق عوام میں یہ شکوک پیدا ہو چکے ہیں کہ انہیں آزادی دلانے والی سیاسی پارٹی اب یہ ملک چلانے کے قابل نہیں رہی ہے انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ پارٹی عوام کو متحد رکھنے میں اب ناکام ہوتی جا رہی ہے۔

نسلی عصبیت کے زخم مندمل ہونے میں وقت لگے گا

کچھ مبصرین کے خیال میں جنوبی افریقہ میں ہر سماجی بیماری کا ذمہ دار اے این سی کی بدانتظامی کو قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ویرنے ہیرس کا سوال ہے کہ مقامی افراد کے استحصال،  نوآبادیات ظلم و جبر اور نسل پرستی کے طویل اور گہرے عمل کے صدمے اور وراثت کو مٹانے کے لیے کیا تین دہائیاں کافی ہیں؟ ان کے بقول تیس سال میں یہ زخم نہیں بھر سکتے ہیں۔

ہیرس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ایک متحدہ ملک (جہاں سفید فام اور سیاہ فام اکٹھے رہیں) تمام شہریوں کی بہتر زندگی کی ضمانت بنے گا، لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ’’کچھ نوجوان اب کہتے ہیں کہ منڈیلا غدار تھے۔‘‘

ہیرس کے بقول جنوبی افریقہ میں بالخصوص نوجوان نسل میں ایک نئی بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی و سماجی مسائل کے حل کی خاطر کھل کر گفتگو کی جا سکے۔

ادھر سدرن افریقہ کے ڈائریکٹر فریڈسن گولیگیو کو البتہ یقین ہے کہ بہت سے مسائل اور مشکلات کے باوجود جنوبی افریقہ نے بہت سے شعبوں میں ترقی کی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے اصرار کیا، ''مستقبل میں ہم شاید نہ صرف براعظم افریقہ بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک زیادہ فعال جنوبی افریقہ دیکھیں گے۔‘‘

مارٹینا شیویکوفسکی (ع ب / ع ا)