1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکہ: نائن الیون کی برسی پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عزم

12 ستمبر 2022

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس موقع پر ان آزادیوں کو سراہا، جن کو 21 برس قبل القاعدہ نے نشانہ بنایا تھا۔ ادھر برسی کے موقع پر دہشت گرد گروپ نے ایک کتاب جاری کی، جس میں حملے کے منصوبوں کی تفصیل درج ہے۔

https://p.dw.com/p/4GiFy
USA l Gedenken an die Opfer des 11. September l  Biden vor dem Pentagon in Washington
تصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

امریکی عوام نے اتوار کے روز 11 ستمبر کے حملوں کی 21 ویں برسی کو یاد کیا اور اس موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔

صدر جو بائیڈن اس وقت دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ہونے والے اہم وسط مدتی انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں اور اس مناسبت سے انہوں نے نائن الیون سے متعلق اپنی تقریر میں بھی اپنے ریپبلکن پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید اور طنز کرنے کی کوشش کی۔

افغانستان کی منجمد رقم نائن الیون متاثرین کو دینے کا فیصلہ، افغان شہری سراپا احتجاج

گیارہ ستمبر کے حملے میں تقریبا ًتین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون بھی شامل تھا۔ وہیں سے ایک خطاب کے دوران جو بائیڈن نے امریکیوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ وہ ''اسی جمہوریت کے لیے کھڑے ہوں جو آزادی کے اس حق کی ضمانت دیتا ہے، جسے نائن الیون کے دہشت گردوں نے آگ کے شعلوں، دھویں اور راکھ میں دفن کرنے کی کوشش کی تھی۔''

سن 2001 میں گیارہ ستمبر کو دہشت گرد گروپ القاعدہ نے ٹوئن ٹاورز سمیت متعدد مقامات پر حملہ کیا تھا، جنہیں امریکی سرزمین پر سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ کہا جاتا ہے۔ القاعدہ کے دہشت گردوں نے چار جیٹ طیاروں کو ہائی جیک کر لیا تھا، جن میں سے تین سے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز اور ارلنگٹن، ورجینیا میں واقع پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

چوتھا طیارہ پنسلوینیا کے شانکس وِلا کے قریب اس وقت گر کر تباہ ہو گیا، جب اس پر سوار افراد نے ہائی جیکر پر قابو پالیا تھا۔

اس حملے کی وجہ سے امریکہ کی ''دہشت گردی کے خلاف اس جنگ'' کا جنم ہوا، جو اب بھی جاری ہے اور جس کا مقصد عالمی دہشت گردی سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس میں القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط جنگ بھی شامل تھی، جس کا اختتام گزشتہ برس مکمل امریکی انخلا کے ساتھ ہوا۔ تاہم بنیاد پرست طالبان نے کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

گیارہ ستمبر کی یادداشت

کبھی بھولیں گے نہ کبھی ہار مانیں گے، بائیڈن

افغانستان سے امریکہ کے انخلاء پر مسلسل تنقید کے باوجود صدر جو بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم آرام سے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم کبھی ہار بھی نہیں مانیں گے۔''

USA l Gedenken an die Opfer des 11. September l  Biden vor dem Pentagon in Washington
صدر جو بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' ابھی ختم نہیں ہوئی ہےتصویر: Susan Walsh/AP/dpa/picture alliance

ایک ماہ قبل ہی کی بات ہے کابل میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت پر امریکی صدر نے جشن منایا تھا۔ مصری نژاد سرجن ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں سرفہرست تھے، جنہیں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے گیارہ برس بعد ہلاک کیا گیا۔

 اس موقع پر امریکہ میں ان مختلف مقامات پر بھی تقریبات منعقد کی گئیں، جن کو عسکریت پسند گروپ نے نشانہ بنایا تھا۔ ان تقریبات میں متاثرین کو یاد کرنے کے ساتھ ہی ان کی تعظیم و توقیر کی گئی۔ خاتون اول جل بائیڈن نے پنسلوانیا میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی جبکہ نائب صدر کمالاہیرس نے نیویارک شہر کی ایک اور یادگاری تقریب میں شامل ہوئیں۔

القاعدہ نے نائن الیون پر کتاب جاری کی

ادھر اسی موقع پر القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک نے ایک کتاب جاری کی ہے، جس میں حملوں سے پہلے کی ٹائم لائن کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ یہ کتاب القاعدہ کے میڈیا ونگ الشباب کی طرف سے آن لائن شائع کی گئی ہے، جس میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے گروپ کے مقاصد کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب گروپ کے ایک سینئر رکن نے تحریر کی ہے، جو تقریباً 250 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ نے امریکہ کو طویل المدتی جنگ کی طرف کھینچنے کے لیے امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

کتاب کے مصنف ابو محمد المصری ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ، سن 2020 میں ایران میں مارے گئے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ہلاک