1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیارہ ستمبر کی یادداشت

11 ستمبر 2021

گیارہ ستمبر کو تین طیاروں کے ذریعے امریکی طاقت کے مرکز پینٹاگون اور نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں میں جہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، وہیں اس دہشت گردی اور امریکی جوابی کارروائی سے عالمی سیاسی منظرنامہ بدل سا گیا۔

https://p.dw.com/p/40CJz
USA Raffat Saeed
تصویر: Privat

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت جو مناظر میں نے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھے ان سے ان حملوں کی قیامت خیزی کا اندازہ بہ خوبی ہو رہا تھا، پورے امریکا میں ایک غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

میں سن 1989 سے امریکا جارہا ہوں۔ نیویارک کے خوبصورت مالیاتی مرکز کی بلند عمارتوں کے درمیان ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کی گہما گہمی میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔

بطور صحافی مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے صدر جارج بش نے امریکی عوام سے اپنے خطاب میں ورلڈ ٹڑیڈ سینٹر پر حملے کی ذمہ داری اور منصوبہ بندی کا الزام القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن پرعائد کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکومت کو پاکستان کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ اگر طالبان اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دیں، تو امریکا افغانستان پر حملہ نہیں کرے گا۔

ان حملوں کے بیس برس مکمل ہونے پر یہ بھی میرے ذہن میں گونج رہا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے سابق وزیرداخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کو  طالبان جنگجوؤں کے رہنما ملا عمر کے پاس اسامہ کی حوالگی کا پیغام دے کر بھیجا تھا۔

ملاعمر نے وزیر داخلہ کو تجویز دی تھی کہ وہ تین اسلامی ممالک کے چیف جسٹس پر مبنی کمیٹی کے روبرو اسامہ کو پیش کرنے کو رضا مند ہیں لیکن اسامہ کو امریکا کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ تاہم واشنگٹن نے ملا عمر کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ 

ان حملوں کے بعد آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل محمود افغانستان گئے، ان کے ہمراہ مفتی نظام الدین شامزئی بھی تھے مگر ملاعمر اسامہ کو حوالے کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔

سابق وزیرداخلہ معین الدین حیدر نے بتایا کہ جب انہوں نے ملاعمر سے تحریک طالبان پاکستان   کی سرگرمیوں اور تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کے لیے کہا، توان کا جواب تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کریں گے مگرعملا ایسا نہیں ہوا۔

نائن الیون کے 20 سال مکمل ہونے پر خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اس خطے  کے دیگرممالک جن میں ایران، پاکستان، روس اور چین بھی شامل ہیں، ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔

امریکی افواج نے جس عجلت میں افغانستان سے فوجی انخلاء مکمل کیا ہے، اس کا پس منظر اور پیش منظر بڑا مختلف ہے۔ گو طالبان حکومت کوابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے مگر دوحہ میں قائم طالبان کا سیاسی دفتر مغربی اور ایشیائی ممالک سے مکمل رابطے میں ہے۔

طالبان عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ طالبان نے اپنی نئی حکومت کی حلف برداری منعقد کرنے کی تاریخ گیارہ ستمبر طے کی تھی مگر دباؤ کی وجہ سے اسے مؤخر کر دیا گیا۔ تاہم اس جنگجو گروہ کے عزائم کیا ہیں، اس کے بارے میں تو وقت ہی بتائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کے قیام سے قبل سن 1994 میں شاہراہ فیصل پر دو امریکی سفارت کاروں کے قتل اور 1995 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کے باہر دو امریکی اہلکاروں کو قتل کرنے والے مبینہ ملزم رمزی یوسف اور ایمل کانسی کی گرفتاری نے القاعدہ کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔

سینئیرصحافی مظہرعباس کہتے ہیں کہ جب رمزی یوسف کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا گیا اور اسے ایک ائیرپورٹ سے کسی مقام پر ہیلی کاپٹر سے منتقل کیا جا رہا تھا تو ہیلی کاپٹرمیں بیٹھے ایف بی آئی کے ایجنٹ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے اوپر سے گزرتے ہوئے رمزی یوسف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'تم ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو اڑانا چاہتے تھے‘، جس ک جواب میں رمزی یوسف نے کہا کہ تھا کہ 'اگر میں کامیاب نہیں ہوا تو کوئی نہ کوئی کامیاب ضرور ہو گا‘۔

9/11: گیارہ ستمبر کے حملوں کے ایک خودکش پائلٹ کی کہانی