1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور مالدیپ کے مابین سفارتی تنازعہ الجھتا ہوا

8 جنوری 2024

مالدیپ کے تین وزیروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے جزیرہ لکشدیپ کے دورے کے دوران ان کا مذاق اڑایا تھا۔ مالے کی حکومت نے ان وزراء کو معطل کر دیا ہے، تاہم دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو بھی طلب کر لیا۔

https://p.dw.com/p/4axqD
مالدیپ کے صدر محمد معیزو
مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تفتیش کے نتائج آنے تک ان نائب وزراء کو معطل کر دیا ہے۔تصویر: Rafiq Maqbool/AP Photo/picture alliance

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ لکشدیپ کے دوران مالدیپ کے بعض وزرا کی جانب سے سوشل میڈیا پر بعض متنازعہ پوسٹ کے تناظر میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان سفارتی تنازعہ الجھتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مالدیپ کے نئے صدرنے بھارتی افواج کوجزیرے سے نکال دینے کا اعلان کیا تھا۔

مالدیپ صدارتی انتخابات: حزب اختلاف کی جیت بھارت کے لیے دھچکہ؟

 مالدیپ میں امور نوجوانان کی وزارت کے تین عہدیداروں نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ''مسخرہ''، ''دہشت گرد'' اور ''اسرائیل کی کٹھ پتلی'' کہا تھا۔

مالدیپ میں ’بھارت نکل جاؤ‘ نامی سیاسی احتجاجی مہم پر پابندی

مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تفتیش کے نتائج آنے تک ان نائب وزراء کو معطل کر دیا ہے۔

مالدیپ کے سابق صدر پر ناکام قاتلانہ حملہ

اس صورت حال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں نئی دہلی میں بین الاقوامی امور کے ماہر صحافی قمر آغا نے کہا کہ ''مودی کی شبیہ ایک ہندو قوم پرست کی رہی ہے اور بھارت میں بھی ان پر اس حوالے سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس طرح کے الزامات لگتے ہی رہتے ہیں، تاہم سرکاری سطح پر وزیر اعظم کے لیے اس طرح کے نازیبا الفاظ کا انتخاب درست نہیں ہے۔''

چین کا اثر کم کرنے کے لیے بھارت کی مالدیپ میں 50 کروڑ ڈالرکی سرمایہ کاری

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ مالدیپ میں دو سیاسی گروپ ہیں، جن میں سے ایک کا رجحان بھارت سے قربت کا ہے، جبکہ ''دوسرے کا چین اور پاکستان'' سے رہا ہے۔۔۔ ظاہر ہے چین جہاں جاتا ہے، ''پاکستان کو بھی ساتھ رکھتا ہے۔''

مالدیپ کا بحران، ٹرمپ اور مودی کا تبادلہٴ خیال

 ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں ''ایسے عناصر شامل ہیں، جو بھارت کو پسند نہیں کرتے اور اس طرح کا بیان ایسے ہی عناطر کی جانب سے آیا ہے۔۔۔۔۔ تاہم معیزو کی حکومت چین اور بھارت دونوں سے توازن برقرار رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ اس کی معیشت کا دار مداو دونوں پر ہے۔''

وزیر اعظم نریندر مودی
دو جنوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مرکز کے زیر انتظام علاقے لکشدیپ کا دورہ کیا تھا اور وہاں کی اپنی کئی تصویریں شیئر کی تھیں۔ واضح رہے کہ لکشدیپ مالدیپ کے شمال میں تقریباً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہےتصویر: Michael Varaklas/AP Photo/picture alliance

خیال رہے کہ بھارتی وزیر اعظم سے متعلق اس طرح کا متنازعہ بیان کوئی نئی بات نہیں۔ تقریبا ایک برس قبل پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرادری نے بھی اپنے ایک بیان میں انہیں ''گجرات فسادات کا قصائی'' کہا تھا۔ان کا اشارہ سن دو ہزار دو کے گجرات کے ان مسلم کش فسادات کی جانب تھا، جس میں تقریبا ًدو ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔

بھارت اور مالدیپ کے بدلتے رشتے

مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزو نے انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ وہ ملک سے بھارتی فوجیوں کو نکال کر باہر کریں گے۔ اس کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ مالدیپ کی نئی حکومت کی پالیسی چین سے قربت کی ہو گی۔

قمر آغا کہتے ہیں کہ یہ بات تو واضح ہے کہ دونوں ملکوں کی ''اس لڑائی میں چین غالب رہے گا، کیونکہ وہاں سے اسے بڑے پروجیکٹ ملنے کی توقع ہے۔ تاہم نئی صدر کی پالیسی توازن برقرار رکھنے کی ہے اور بھارت سے تعلقات ٹھک ٹھاک رہیں گے۔''

بھارت نے مالدیپ کے وزیروں کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور احتجاج کے لیے نئی دہلی میں مالدیپ کے سفیر کودفتر وزارت خارجہ میں طلب کیا۔ پیر کے روز نئی دہلی میں مالدیپ کے سفیر ابراہیم شہیب بھارتی وزارت خارجہ میں حاضر ہوئے اور اپنے ملک کے موقف کو واضح کیا۔

بھارت: میوات میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد صورت حال کیا ہے؟

اس دوران اطلاعات ہیں کہ مالدیپ نے بھی مالے میں بھارت کے اعلی سفارت کار منو مہاور کو طلب کیا ہے تاکہ وہ اس بارے میں اپنا موقف واضح کر سکیں۔ وہ مالدیپ کی وزارت خارجہ میں دوپہر کو پیش ہوئے۔

معاملہ کیا ہے؟

دو جنوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مرکز کے زیر انتظام علاقے لکشدیپ کا دورہ کیا تھا اور وہاں کی اپنی کئی تصویریں شیئر کی تھیں۔ واضح رہے کہ لکشدیپ مالدیپ کے شمال میں تقریباً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

بھارتی وزیر اعظم کی اسی پوسٹ کے رد عمل میں مالدیپ حکومت میں ایک نائب وزیر شیونا وزراء نے مودی پر تنقید کی تھی اور انہیں ایک ''مسخرہ'' اور ''دہشت گرد'' کہا۔ اب اس پوسٹ کو حذف کر دیا گیا ہے اور مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور نتائج آنے تک نائب وزراء کو معطل کر دیا گیا ہے۔

اس تنازعے کے سامنے آنے کے بعد مالدیپ کے وزیر خارجہ موسی ضمیر نے کہا ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ غیر ملکی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کے ریمارکس ''ناقابل قبول'' ہیں اور یہ مالدیپ حکومت کے سرکاری موقف کی عکاسی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ مالدیپ اپنے تمام شراکت داروں بالخصوص اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ''مثبت اور تعمیری بات چیت'' کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''غیر ملکی رہنماؤں اور ہمارے قریبی پڑوسیوں کے خلاف حالیہ ریمارکس ناقابل قبول ہیں۔ ہم سب کے ساتھ مثبت اور تعمیری بات چیت کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں، خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے رشتے، باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔''

پاکستان اور بھارت کے درمیان بٹا ہوا کشمیری گاؤں