1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جیسے بابر، اورنگ زیب ختم ہو گئے اویسی بھی ختم ہو جائیں گے

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
11 جنوری 2022

آسام کے وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر کرنی ہے جس میں کسی اویسی یا اورنگ زیب کی جگہ نہ ہو۔ دانشوروں کے ایک گروپ کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ 

https://p.dw.com/p/45N14
Indien | Politiker Gesundheit- und Finanzminister Himanta Biswa Sarma
تصویر: IANS

ایک ایسے وقت جب بھارت میں دانشوروں اور سرکردہ شخصیات نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اقلیتوں کے خلاف نفرت انگيز بیانات پر کنٹرول کے لیے مداخلت کی اپیل کی ہے، بی جے پی کے ایک رہنما نے ایک بار پھر اسی طرز کے نفرت انگیز بیان سے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔  

بھارتی ریاست آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا شرما کو ریاست تلنگانہ میں اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان سے خطاب کرنا تھا تاہم انہوں نے اپنے خطاب کا بیشتر وقت مغلوں، نظاموں اور ریاست سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی رہنما اسد الدین اویسی کے خلاف بیان بازی پر صرف کیا۔

آسام کے وزیر اعلی نے کیا کہا؟

 بی جے پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ جیسے کشمیر کی، "دفعہ 370 کا خاتمہ ہو گيا، جیسے رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گيا ہے، اسی طرح یہاں نظام اور اویسی کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ اس میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ بھارتی تاریخ بتاتی ہے کہ بابر، اورنگزیب اور نظام بہت دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتے۔"

 ان کا مزید کہنا تھا، "ہمیں ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر کرنی ہے، جس میں کسی اویسی کی جگہ نہیں ہو گی، جس میں اورنگ زیب کی جگہ نہیں ہو گی، جس میں بابر کے لیے جگہ نہیں ہو گی۔ جس بھارت میں کوئی بھی نظام کی تاریخ نہیں پڑھے گا، بلکہ ہمارے اپنے رہنماؤں کی تاریخ پڑھائی جائے گی۔"

تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد پر تقسیم ہند سے قبل تک نظام نے برسوں تک حکمرانی کی تھی اور ان کا اشارہ انہیں کی جانب تھا۔ سوشل میڈیا پر اس متنازعہ بیان پر کافی بحث ہوئی اور بہت سے افراد نے اسے اشعال انگیز قرار دیا تاہم بس یہ بحث یہیں آ کر رک جاتی ہے۔   

اس موقع پر آسام کے وزیر اعلی نے بھارت کو نئی سمت دینے کے لیے وزیر اعظم مودی کی تعریف کی اور ریاست تلنگانہ میں بے روزگاری جیسے مسائل پر بھی بات کی تاہم یہ نہیں بتایا کہ جب سے مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں اسی وقت سے ملک میں بے روز گاری کا سنگین مسئلہ شروع ہوا اور اس وقت ملک ایک بحران سے گزر رہا ہے۔

Indien Symbolbild nationalistische Hindus
تصویر: Hindustan Times/imago images

مودی سے نفرت کی آوازوں پر قابو پانے کی گزارش

چند روز قبل ہی بھارت کے بہت باوقار اور معروف ادارے 'انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ‘ (آئی آئی ایم) کے  طلبہ اور اساتذہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھ کر انہیں ملک میں نفرت انگیز تقریروں اور اقلیتوں پر حملوں کے خلاف خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس معاملے میں خاموشی نفرت کی ایسی آوازوں کو مزید تقویت اور حوصلہ دے رہی ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجے گئے اس خط پر 183 افراد نے دستخط کیے ہیں۔ بہت سے طلبہ کے ساتھ ساتھ اس پر دستخط کرنے والوں میں آئی آئی ایم بنگلور کے 13 فیکلٹی ارکان اور آئی آئی ایم احمد آباد کے تین فیکلٹی ممبرز بھی شامل ہیں۔

اس مکتوب میں لکھا گیا تھا، "جناب وزیر اعظم صاحب، ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر آپ کی خاموشی ہم سب کے لیے بہت ہی مایوس کن ہے، جو اپنے ملک کے کثیر الثقافتی ڈھانچے کی قدر کرتے ہیں۔ آپ کی خاموشی نفرت سے بھری آوازوں کو تقویت بخشتی ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔"

دانشوروں نے لکھا تھا، "ہمارے ملک میں اب ایک خوف کا ماحول ہے۔ حالیہ دنوں میں گرجا گھروں سمیت بہت سی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ ہوتی رہی ہے، اور ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے خلاف تو ہتھیار اٹھانے کی بھی آوازیں آ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بغیر کسی کارروائی کے ڈر سے کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔"

یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک میں مسلم اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ بی جے پی تاہم اپنے خلاف اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

گزشتہ ماہ ہی ہری دوار میں سخت گیر ہندوؤں کی ایک 'دھرم سنسد‘ (مذہبی اجلاس) کے موقع پر متعدد ہندو مذہبی رہنماؤں نے عام لوگوں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے اور ان کے قتل عام اور نسل کشی کے لیے کہا تھا۔

اس سے متعلق کئی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں اور تمام مقررین واضح طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔ پولیس نے اس کی تفتیش کی تو بات کی تھی تاہم ابھی تک کسی رہنما کو گرفتار  نہیں کیا گيا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور عدالت نے بھی اس پر سماعت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

بھارت میں نماز جمعہ اتنی مشکل کیوں ہو گئی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں