1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کروا چوتھ کے اشتہار میں ہم جنس جوڑے پر نیا تنازعہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
26 اکتوبر 2021

ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے کروا چوتھ کی تقریب میں دو ہم جنس خواتین کو دکھانے پر کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ سخت گیر ہندوؤں نے بھی کمپنی کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جس کے بعد اشتہار کو واپس لے لیا گيا۔

https://p.dw.com/p/42BYH
BdTD Indien Gay Pride Parade
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے 25 اکتوبر پیر کے روز کروا چوتھ سے متعلق ایک اشتہار میں ہم جنس خواتین کو پیش کرنے پر سخت کارروائی کی دھمکی دی  اور کہا کہ اس اشتہار سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد کمپنی نے معذرت پیش کرتے ہوئے اپنا اشتہار واپس لے لیا ہے۔

 ریاستی وزیر نورتم مشرا کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے تہوار ''کروا چوتھ‘‘ سے متعلق کمپنی کا اشتہار،  ''قابل اعتراض مواد پر مبنی ہے۔‘‘  انہوں نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں اور اگر اسے واپس نہ لیا گيا تو کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

 معاملہ کیا ہے؟

کروا چوتھ ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جس میں ایک شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کی لمبی عمر اور اس کی صحت کے لیے دن بھر کا روزہ رکھتی ہے۔ رات کو چاند کا دیدار کرنے کے بعد بیوی اپنے شوہر کو پہلے چھنی سے دیکھتی ہے اور پھر اس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے اپنا روزہ کھولتی ہے۔

کروا چوتھ منانے والی خواتین اس موقع پر عموماً اس رسم کے لیے نئے کپڑے پہنتی ہیں اور پورا سنگار کرنے کے ساتھ ساتھ خوب سجتی سنورتی بھی ہیں۔ اسی مناسبت سے اس موقع پر خوب شاپنگ ہوتی ہے۔ بھوپال کی ڈابر نامی کمپنی نے اسی مناسبت سے اپنے ایک کریم برانڈ کا نیا اشتہار دیا اس میں مرد و خواتین کے بجائے دو ہم جنس خواتین کو دکھایا گيا ہے۔

یہ ہم جنس عورتیں شوہر کے بجائے چاند کے سامنے خود ہی کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد ایک دوسرے کا روزہ کھلواتی ہیں اور پھر رسم پوری کرتے ہیں۔ اس کی ٹیگ لائن ہے، ''جب آپ کا نکھار ایسا ہو ، تو دنیا کی سوچ کیسے نہ بدلے۔‘‘ اشتہار کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ہم جنس پرست خواتین کے والدین بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے، اس تقریب میں ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔

Indien Symbolbild LGBT
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

ہندو گروپوں کا اعتراض 

لیکن سخت گیر ہندوتوا گروپوں کو اس اشتہار پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے ایک مذہبی تہوار کا مذاق اڑایا گيا ہے اور اسی لیے بہت سے لوگوں نے کمپنی کے خلاف بائیکاٹ مہم شروع کی۔

ریاستی وزیر داخلہ نورتم مشرا کا کہنا تھا، ''آج انہوں نے دو عورتوں کو دکھایا ہے، کل کو وہ دو لڑکوں کی آپس میں شادی کرتے ہوئے دکھا دیں گے۔ اس لیے میں نے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر ایف آئی آر درج کرانے سے پہلے اشتہار واپس لینے کے لیے متنبہ کرنے کو کہا تھا۔ اب یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے اشتہار خود ہی واپس لے لیا اور اس کے لیے معافی بھی مانگ لی ہے۔

رجنیش نامی ایک شخص نے اس مہم کی حمایت کرتے ہوئے لکھا، ''ڈابر کی فیم نے بھی ہندو تہواروں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔ انتہائی ناقص اشتہار جس میں ایک ہم جنس پرست جوڑے کو کروا چوتھ کا مذاق اڑاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ عید کے موقع پر ایسا مذاق کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم بہت زیادہ برداشت کر لیتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی بھلائی کے لیے آواز اٹھائیں۔‘‘

مختلف ہندو گروپوں کی جانب سے اسی طرح کی بہت سے آوازیں اٹھنے کے بعد ریاستی حکومت نے بھی جب کمپنی کو دھمکی دی تو کمپنی نے معذرت پیش کرتے ہوئے ایڈ واپس لینے کا اعلان کیا۔ ڈابر نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''کروا چوتھ سے متعلق فیم کی اشتہاری مہم کو تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے واپس لے لیا گیا ہے۔ ہم غیر ارادی طور پر لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے غیر مشروط طور پر معذرت خواہ ہیں۔‘‘

Indien Homosexuelle Gender Rechte Demonstration Regenbogenfahne
تصویر: AP

بھارت میں قانون کی رو سے ہم جنس پسندی اب بھی ایک سنگین جرم ہے تاہم بعض عدالتوں نے اپنے فیصلوں ایسے ہم جنس جوڑوں کے حق میں فیصلے سنائے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے ایک بار اس سے متعلق ایک درخواست پر سماعت کے بعد کہا تھا کہ اس حوالے سے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ تاہم حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

حال ہی میں حمکران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے بالی وڈ کے معروف اداکار عامر خان کے اس اشتہار پر اعتراض کیا تھا، جس میں ہندوؤں کے تہوار دیوالی کے موقع پر وہ لوگوں سے سڑکوں پر پٹاخے نہ پھوڑنے کی گزارش کر رہے ہیں۔ بی جے پی رہنماؤں  کا دعویٰ ہے کہ اس اشتہار سے ہندو برادری بے چینی محسوس کر رہی ہے۔

اس سے چند روز پہلے ہی کی بات ہے فرنیچر اور روایتی ملبوسات تیار کرنے والی ایک کمپنی ''فیب انڈیا‘‘  نے اپنے نئے کپڑوں کے لیے جو اشتہار استعمال کیا تھا اس میں فیسٹیو سیزن کے لیے بطور استعارہ اردو کے الفاظ ''جشن رواج‘‘  کا استعمال کیا گيا تھا۔ بی جے پی نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا اور  بعد میں کمپنی نے معذرت کے ساتھ اپنا اشتہار واپس لیا۔

بی جے پی نے فیب انڈيا کے اس اشتہار کو بھی ہندوؤں کے جذبات مجروح کرنے والا بتایا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ کمپنی اپنی سیل کے لیے دیوالی کو استعمال کر رہی ہے اور ہندوؤں کے اتنے بڑے تہوار کو ''جشن رواج‘‘ کیسے کہا جا سکتا ہے۔  

بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں