1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل منیر کے دورہ واشنگٹن پر پاکستان کو امریکی یقین دہانی

13 دسمبر 2023

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نیٹو پارٹنر ہے اور وہ اس کے ساتھ علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون کے لیے شراکت داری کرنے کا منتظر ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ان دنوں واشنگٹن کے دورے پر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4a5st
جنرل عاصم منیر
جنرل عاصم منیر اتوار کے روز امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے تھے اور توقع ہے کہ واشنگٹن میں ان کی وزارت دفاع، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہم امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوں گیتصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر دونوں ملکوں کے تعلقات کی مرکزیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسلام آباد کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان اس کا ایک اہم اتحادی اور پارٹنر ہے۔

پاکستانی فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر امریکہ کے دورے پر

جنرل عاصم منیر اتوار کے روز امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے تھے اور توقع ہے کہ واشنگٹن میں ان کی وزارت دفاع، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہم امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوں گی۔

اسامہ بن لادن کے خط کی اشاعت پر امریکہ ناراض کیوں؟

پاکستانی فوج کی میڈیا ونگ نے اس دورے کا اعلان تو کیا تھا، تاہم امریکہ میں ان کی مصروفیات کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ البتہ سفارتی ذرائع سے ملنے والی بعض اطلاعات میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکی وزیر دفاع اور خارجہ کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر سے بھی ملاقات کریں گے۔

پاکستان افغان پناہ گزینوں کے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، امریکہ

امریکہ نے اس حوالے سے مزید کیا کہا؟

جب پاکستانی آرمی چیف کی واشنگٹن میں مصروفیات سے متعلق جب امریکی محکمہ خارجہ کی پریس کانفرنس میں پوچھا گیا، تو امریکی ترجمان نے بھی دورے کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

پاکستان اور مغرب کے بڑھتے تعلقات چینی مفادات کے لیے چیلنج؟

البتہ ترجمان نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان پائیدار تعلقات پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان ایک بڑا نان نیٹو اتحادی اور نیٹو پارٹنر ہے۔ عموماً ہم علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون پر ان کے ساتھ شراکت داری کے منتظر رہتے ہیں۔''

جنرل عاصم منیر اور نواز شریف
امریکا کا کہنا ہے کہ اندرونی سیاست میں مداخلت امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی نہیں ہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ واشنگٹن کے سفارتی طرز سے مطابقت نہیں رکھتا ہےتصویر: AP Photo/picture alliance

کشمیر پر بات چیت کا امکان

جنرل منیر کی واشنگٹن آمد ایک ایسے وقت ہوئی جب بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مودی حکومت کے کشمیر سے خصوصی آئین دفعہ 370 کے خاتمے کی توثیق کر دی ہے۔ اس مناسبت سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اس مسئلے کو امریکی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اٹھا سکتے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ 'علاقائی استحکام مشترکہ مفاد ہے'، امریکہ

جب بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں سوال کیا گیا، تو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اپنے متوازن موقف کو دہرایا۔ ان کا کہنا تھا، ''سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو نوٹ کرتے ہوئے، ہم جموں و کشمیر میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔''

ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسمبلی انتخابات کے انعقاد سمیت، جموں و کشمیر میں سیاسی معمولات کو بحال کرنے کے وعدوں کو پورا کرنے کے بارے میں ہم بھارتی حکومت کی جانب سے مزید اقدامات کے منتظر ہیں۔''

اس پریس کانفرنس سے قبل پیر کی سہ پہر کی ایک نیوز بریفنگ کے دوران محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بھی بات کی اور اس بات کی تردید کی امریکہ پاستانی کی سیاست میں مداخلت کرتا ہے۔

امریکہ پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتا 

ان سے سوال کیا گیا تھا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی کافی ناراض ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ امریکہ پرانے کرپٹ مجرم لیڈر کو پاکستان واپس لایا ہے، تو کم از کم کرپٹ سیاستدانوں کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔ اس سوال کا اشارہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی کے طرف تھا۔

اس کا جواب دیتے ہوئے ملر نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں لیڈروں کے انتخاب میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''امریکہ پاکستان کے قائدین کے انتخاب میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ ہم پاکستانی عوام کی طرف سے فیصلہ کردہ قیادت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ اندرونی سیاست میں مداخلت امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی نہیں ہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ واشنگٹن کے سفارتی طرز سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تازہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا: ''ظاہر ہے، ہم ان دونوں ممالک کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کے سفارتی حل کی حمایت کرتے ہیں۔''

 ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘