1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان قرض دینے کے ساتھ ہی بھارت میں سرمایہ کاری بھی کرے گا

19 مارچ 2022

جاپانی وزیر اعظم کا آج سے بھارت کا دو روزہ دورہ شروع ہو رہا ہے اور وہ یہاں 42 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر سکتے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب یوکرین پر روسی حملے کے سبب دنیا غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔

https://p.dw.com/p/48ilZ
Japan Tokio | Coronavirus | Fumio Kishida, Premierminister
تصویر: Kyodo via REUTERS

 جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا ہفتہ 19 مارچ سے شروع ہونے والی دو روزہ بھارت - جاپان سالانہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے نئی دہلی میں ہیں۔ گزشتہ برس وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کشیدا کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی ان کی یہ پہلی ملاقات ہے۔

بھارت اور جاپان کے درمیان آخری بار سالانہ سربراہی کانفرنس ٹوکیو میں 2018 میں ہوئی تھی اور اس کے بعد سے یہ پہلی کانفرنس ہو گی۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب یہ سالانہ کانفرنس بھی اب تک تعطل کا شکار رہی۔  

اہم اعلان کیا ہو سکتے ہیں؟

ایک معروف میڈیا ادارے ’نکّئی ایشیا‘ کے مطابق جاپان کے وزیر اعظم بھارت کے اپنے پہلے دورے کے دوران آئندہ پانچ برسوں کے لیے 42 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ایک منصوبے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

اس کے مطابق، جاپانی وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے دوران تقریباً 300 ارب ین کے قرض کی بھی منظوری دے سکتے ہیں۔ توانائی سے متعلق تعاون میں کاربن میں کمی کی دستاویزات پر بھی دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔

سن 2014 میں اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے ساڑھے تین کھرب ین کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جسے فومیو کشیدا نے بڑھا کر پانچ کھرب ین یعنی 42 ارب امریکی ڈالر کر دیا ہے۔

Japan Premierminister Fumio Kishida
تصویر: The Yomiuri Shimbun/AP Images/picture alliance

بھارتی وزارت خارجہ کا بیان

 بھارت اور جاپان کے درمیان سربراہی اجلاس کا یہ 14واں ایڈیشن ہے۔ اس موقع پر بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ’’وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر، جاپان کے وزیر اعظم  فومیو کشیدا نئی دہلی کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ یہ نئی دہلی میں 19 سے 20 مارچ کے درمیان ہو گی۔ یہ کانفرنس ان دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات ہو گی۔‘‘

نئی دہلی کے مطابق بھارت اور جاپان کے درمیان ’خصوصی اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری‘ کے دائرے میں کثیر جہتی تعاون ہے۔ یہ سربراہی اجلاس دونوں فریقوں کو مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کا جائزہ لینے اور اسے مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

 بیان میں کہا گيا کہ اس کی مدد سے، ’’ہند - بحرالکاہل خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی کے لیے اپنی شراکت داری کو مزید  آگے بڑھایا جا سکے گا۔‘‘

 بھارت اور جاپان نے حالیہ برسوں کے دوران اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مزید گہرا کیا ہے۔ دونوں کے درمیان آزاد اور کھلے ہند بحرالکاہل میں سب کی شمولیت کے سوال پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ علاقائی تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور سکیورٹی کے شعبے میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

یوکرین پر تبادلہ خیال کا امکان

سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنما اپنے سفارتی تعلقات اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کا جائزہ لیں گے۔ مودی اور کشیدا کی بات چیت میں یوکرین کی صورتحال پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ٹوکیو نے یوکرین پر روسی حملوں کی وجہ سے ماسکو کی جو پسندیدہ ملک کا درجہ دے رکھا تھا اسے اب منسوخ کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کی ہی طرح جاپان نے بھی روس پر کئی طرح کی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

لیکن اس معاملے پر بھارت کا موقف جاپان سے بالکل مختلف ہے اور مودی حکومت نے یوکرین اور روس کے تنازعے پر جو موقف اختیار کیا ہے وہ عملی طور پر روس کے مفاد میں ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسبملی سمیت متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے روس کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ہی کئی اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تاہم مغربی ممالک کے اصرار کے باوجود بھارت نے روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا بلکہ وہ اس عمل سے غیر حاضر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس نہ صرف بھارت کو دفاعی ساز و سامان مہیا کرتا بلکہ اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اس حوالے سے روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں