1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مودی حکومت کو دھچکا

جاوید اختر، نئی دہلی
12 مئی 2023

بھارتی سپریم کورٹ نے دہلی اور مہاراشٹر سرکار کے متعلق اپنے فیصلے میں مرکزی حکومت کو اس کے اختیارات کے حدود یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ عدالت نے گورنروں اور لیفٹننٹ گورنروں کو منتخب حکومتوں کا احترام کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4RFMi
Indien Oberster Gerichtshof in Neu Dehli
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

 

دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت  نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بی جے پی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جو اس کے بقول "دہلی میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش" کر رہی تھی۔ مہاراشٹر میں اقتدار سے محروم کردی گئی پارٹی شیو سینا نے عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم مودی سے کہا کہ وہ 'اپنے لوگوں ' کو فوراً مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کا سامنا کرنے کے لیے کہیں۔

مودی ’بزدل اور نفسیاتی مریض‘، دہلی کے وزیر اعلیٰ کا الزام

اپوزیشن کانگریس پارٹی نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تاہم کہا کہ "اب دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت اور بی جے پی کے نامزد کردہ لیفٹننٹ گورنر کے درمیان نورا کشتی اور الزامات تراشی کا کھیل ختم ہوجانا چاہئے۔"

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرے گی۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی حکومت عدالت کے فیصلے کی آڑ میں " افسران کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی ایک نئی تجارت" شروع کردے گی۔

بی جے پی دہلی کے صدر ویریندر سچدیوا نے کہا،"کیجریوال پچھلے آٹھ برسوں سے جس چیز کا خواب دیکھ رہے تھے وہ انہیں آج حاصل ہو گیا۔ اب وہ بہترین سرکاری افسران کی تقرری کے بجائے ٹرانسفر۔ پوسٹنگ کو ایک نئی تجارت بنادیں گے۔ وہ صرف ان افسران کا خیال رکھیں گے جو ان کے اور ان کے وزیروں کے سامنے اپنا سرخم کردیں۔"

 اروند کیجریوال حکومت کا کہنا تھا کہ بی جے پی عوامی مفاد کے ہر کام میں ایل جی کے ذریعے روڑے اٹکاتی ہے
 اروند کیجریوال حکومت کا کہنا تھا کہ بی جے پی عوامی مفاد کے ہر کام میں ایل جی کے ذریعے روڑے اٹکاتی ہےتصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images

عدالت نے کیا فیصلہ سنایا ہے؟

سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز دہلی اور مہاراشٹر حکومت کے حوالے سے دو اہم اور دور رس اہمیت کے حامل فیصلے سنائے۔ عدالت عظمیٰ کی ایک آئینی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں دہلی حکومت کو خدمات کے سلسلے میں قانون سازی اور انتظامی اختیارات سونپتے ہوئے لفٹننٹ گورنر(ایل جی) کے اختیارات کو اراضی، امن عامہ اور پولیس تک محدود کردیا۔

بھارتی عدلیہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکے گی؟

 عدالت نے کہا کہ ان تینوں امور کے علاوہ دیگر تمام معاملات میں ایل جی ریاستی وزیر اعلیٰ کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ دہلی پولیس پہلے سے ہی مرکزی حکومت کے ماتحت ہے۔

دراصل سن 2019 میں عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ "خدمات " مکمل طورپر دہلی حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ اس فیصلے کے سبب دہلی حکومت اور مرکز کے نامزد کردہ لفٹننٹ گورنر میں مسلسل رسہ کشی ہوتی رہی۔

اروند کیجریوال حکومت نے کیا دلائل دیے

 اروند کیجریوال حکومت کا کہنا تھا کہ بی جے پی عوامی مفاد کے ہر کام میں ایل جی کے ذریعے روڑے اٹکاتی ہے۔

دوسری طرف ایل جی قانونی ضا بطوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے فیصلوں کو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فریقین کو ان کے اختیارات کے حدود یاد دلاتے ہوئے واضح طورپر کہا کہ منتخب حکومت کی عوام کے تئیں جوابدہی ہوتی ہے اس لیے انتظامیہ کی اصل طاقت اسی کے پاس ہونی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ اگر خدمات کو قانون سازی اور عاملہ کے دائرہ کار سے باہر رکھا جائے تو وزراء ان سرکاری ملازمین پر کنٹرول کیسے رکھ پائیں گے، جنہیں عاملہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر افسران وزیروں کو رپورٹ کرنا بند کردیں یا ان کی ہدایات پر عمل نہ کریں تو اجتماعی ذمہ داری کے پورے اصول پر اثرپڑتا ہے۔

بھارت: سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی سمت ایک اہم قدم

 عدالت نے تسلیم کیا کہ گوکہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کے فیصلے کی روشنی میں ایل جی ریاستی کابینہ کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ اب آئندہ چند دنوں میں دہلی انتظامیہ میں زبردست رد و بدل کیا جائے گا۔ بدعنوان افسران کو ہٹایا جائے گااور ایماندار افسران کی تقرری کی جائے گی۔ غیر ضروری عہدوں کو منسوخ کردیا جائے گا یا پھر خالی رکھا جائے گا۔

راہول گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم، حکومت پر سازش کا الزام

سپریم کورٹ کے فیصلے کے ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ہی کیجریوال حکومت نے محکمہ خدمات کے سکریٹری اشیش مورے کا ٹرانسفر کردیا۔

مہاراشٹرا میں گزشتہ برس بی جے پی نے ورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی مدد سے ایک اتحادی حکومت تشکیل دے دی تھی
مہاراشٹرا میں گزشتہ برس بی جے پی نے ورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی مدد سے ایک اتحادی حکومت تشکیل دے دی تھیتصویر: Hindustan Times/IMAGO

مہاراشٹر حکومت کے متعلق عدالت کی رائے

سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں اراکین اسمبلی کی مبینہ خریدوفروخت کے ذریعہ شیو سینا کی قیادت والی اودھو ٹھاکرے حکومت کو گورنر اسپیکر کی مدد سے ختم کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی اور غلط قرار دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس بی جے پی نے شیو سینا کے ممبران اسمبلی کو مبینہ خریدوفروخت کے ذریعہ باغی اراکین کے لیڈر ایکناتھ شنڈے کو اپنی طرف کرلیا تھا اور گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی مدد سے ایک اتحادی حکومت تشکیل دے دی تھی۔

عدالت نے تاہم کہا کہ وہ اودھو ٹھاکرے حکومت کو بحال نہیں کرسکتی کیونکہ اس نے اعتماد کے ووٹ کا سامنا نہیں کیا تھا۔

 اودھو ٹھاکرے نے گزشتہ برس جون میں وزیر اعلی کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد اودھو ٹھاکرے نے کہا کہ "ایکناتھ شنڈے نے جمہوریت کا قتل کرکے جیت حاصل کی تھی۔ انہیں اب اخلاقی بنیاد پر استعفی دے دینا چاہئے۔"  لیکن بی جے پی کے رہنما اور نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے یہ طے ہوگیا کہ  ریاست کی موجودہ حکومت آئینی اور قانونی ہے۔