1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پارٹی میں بغاوت کے سبب مہاراشٹر کے وزیر اعلی مستعفی

جاوید اختر، نئی دہلی
30 جون 2022

مہاراشٹر میں شیوسینا کی قیادت والی مخلوط حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ دونوں ہندو قوم پرست جماعتوں کے مابین ایک عرصے سے رسہ کشی جاری تھی۔

https://p.dw.com/p/4DS8a
Indien | Uddhav Thackeray
تصویر: AFP/Getty Images

مہاراشٹر میں ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کی قیادت والی مخلوط حکومت 'مہاراشٹروکاس اگھاڑی'(ایم وی اے)  کے وزیر اعلی اودھوٹھاکرے گزشتہ کئی دنوں سے اپنی پارٹی کے باغی اراکین اسمبلی کو منانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم جب وہ اس میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے بدھ کی رات کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

اودھو ٹھاکرے نے اس وقت استعفی دیا جب اس سے قبل بھارتی سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے انہیں ریاستی اسمبلی میں جمعرات کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے ریاستی قانون ساز کونسل کی رکنیت سے بھی استعفی دے دیا ہے۔

'کرسی چھوڑنے کا کوئی غم نہیں'

شیوسینا کے 39 اراکین اسمبلی نے اودھو ٹھاکرے سے بغاوت کرکے پارٹی کے ایک دیگر سینیئر لیڈر ایکناتھ شنڈے کو اپنا رہنما تسلیم کرلیا ہے۔

اودھو ٹھاکر نے سوشل میڈیا پر ایک مختصر لیکن جذباتی تقریر میں کہا، ''مجھے وزیر اعلی کی کرسی چھوڑنے کا کوئی غم نہیں ہے۔ مجھ سے جو کچھ ہوسکتا تھا وہ میں نے کیا۔ میں نے مراٹھی عوام اور ہندوتوا کے لیے کام کیا۔ آج ہر شخص کے سامنے میں ریاست کے وزیر اعلی کے عہدے سے اپنے استعفی کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا، ''ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ جمہوریت کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ استعفی سے چند گھنٹے قبل ان کی کابینہ نے اورنگ آباد شہر کا نام بدل کر شمبھاجی نگراورعثمان آباد کا نام دھاراشیو رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔

ہندو قوم پرست تنظیمیں ایک عرصے سے ان دونوں شہروں کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ اورنگ آباد میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کی قبر ہے۔ جبکہ عثمان آباد کا نام حیدرآباد کے ساتویں اور آخری نظام میرعثمان علی خان کے نام پر رکھا گیا تھا۔

Indien | Devendra Fadnavis
مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما دیویندرفڑنویستصویر: Indranil Mukherjee/AFP/Getty Images

شیو سینا اتحاد کے ساتھ ہوا کیا؟

اودھو ٹھاکرے کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندرمودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے بھارت کی امیر ترین ریاست مہاراشٹر میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے راستہ ہموار ہوگیا ہے۔

شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی روایتی اتحادی رہے ہیں۔ لیکن سن 2019 کے اسمبلی انتخابات کے بعد شیو سینا نے بی جے پی سے ناطہ توڑ کر کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی سے ہاتھ ملا لیا اوراتحادی حکومت قائم کرلی۔

اس ماہ کے اوائل میں شیو سینا کے 55 اراکین اسمبلی میں سے 39 نے شنڈے کی قیادت میں ایک علیحدہ گروپ بنالیا۔ اس کے بعد ان تمام  39 اراکین کو ٹھاکرے حکومت کے گرنے کے انتظار میں پہلے ریاست گجرات کے سورت شہر لے جایا گیا اس کے بعد انہیں آسام میں ایک ہوٹل میں رکھا گیا۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

اس سیاسی بحران کے درمیان مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما دیویندرفڑنویس نے منگل کو ریاست کے گورنر سے ملاقات کی اوراودھو ٹھاکرے کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی۔

اس پیش رفت کے کیا مضمرات ہوں گے

سن 2019 میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد قائم نہ کرکے شیو سینا نے بھارت کی حکمران جماعت کو ملک کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹر میں حکومت قائم کرنے سے محروم کردیا تھا۔ بی جے پی اس سے سخت ناراض تھی اور شیو سینا حکومت کے خلاف مسلسل حملے کرتی رہی تھی۔

شیوسینا حکومت کے قیام کے تقریباً تین برس بعد اس کے باغی اراکین نے الزام لگایا کہ پارٹی کا غیر بی جے پی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اس دائیں بازو کی جماعت کے اصولوں اور ہندو قوم پرست نظریات کے خلاف ہے۔

شنڈے کی قیادت والے باغی گروپ کا کہنا ہے کہ بی جے پی ہی شیو سینا کی فطری حریف ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ باغی گروپ کی حمایت سے فڑنویس مہاراشٹر میں بی جے پی کی اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ 288 رکنی اسمبلی میں اسے 170 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اگلے تین دنوں میں حکومت بنالے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید