1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں اے آئی کے سبب ملازمتوں کا خاتمہ شروع

جاوید اختر، نئی دہلی
26 دسمبر 2023

مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے شعبے میں ہونے والی برق رفتار ترقی کی وجہ سے مختلف شعبوں میں ملازمتوں کے خاتمے کے ممکنہ خدشات بھارت میں درست ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aa4x
پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرما
پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرماتصویر: Rodrigo Reyes Marin/ZUMA Wire/picture alliance

آن لائن پیمنٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی پے ٹی ایم (Paytm) کی مالک کمپنی 'ون 97 کمیونیکیشنز'نے اپنے ایک ہزار سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے، جو اس کی موجودہ افرادی قوت کا دس فیصد سے زیادہ ہے۔

یہ بھارت میں جدید ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بڑی تعداد میں ملازمین کو نکالے جانے کے حوالے سے اس سال کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ پے ٹی ایم کے بعد دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اسی راہ پر آگے بڑھنے کے منصوبے بنارہی ہیں۔

پے ٹی ایم کے ترجمان نے ملازمتوں کو ختم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیفیشیل انٹیلی جنس(اے آئی) یا مصنوعی ذہانت کے استعمال کرنے کی وجہ سے سیلز اور انجینئرنگ کے شعبوں میں بیشتر ملازمتیں متاثر ہوئی ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا،''ہم کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اے آئی سے چلنے والی خود کار مشینوں کے ساتھ اپنے آپریشنز کو تبدیل کررہے ہیں۔ ترقی اور لاگت کے اعتبار سے کارکردگی کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے بار بار دہرائے جانے والے کاموں اور کرداروں کو ختم کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آپریشنز اور مارکیٹنگ میں ہماری افرادی قوت میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘

مصنوعی ذہانت سے موت کے وقت کی درست پیش گوئی ممکن، نئی تحقیق

پے ٹی ایم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کمپنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آٹو میشن کا استعمال کرکے ملازمین پر ہونے والے اخراجات میں دس سے پندرہ فیصد کی بچت کرسکے گی۔ انہوں نے بتایا،"ہم ملازمین کے اخراجات میں دس سے پندرہ فیصد کی بچت کرسکیں گے کیونکہ اے آئی نے ہماری توقعات سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔"

بھارت میں اب آن لائن پیمنٹ سروس کا چلن عام ہے
بھارت میں اب آن لائن پیمنٹ سروس کا چلن عام ہےتصویر: Indranil Aditya/NurPhoto/picture alliance

دیگر بھارتی کمپنیوں میں بھی ملازمین کی چھانٹی

صرف پی ٹی ایم ہی نہیں بھارت میں دیگر کمپنیوں نے بھی رواں برس اپنے ملازمین کو بڑی تعداد میں ملازمتوں سے نکالا ہے۔

 ملازمین کی تعداد پر نگاہ رکھنے والے ایک ادارے لانگ ہاؤس کنسلٹنگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال نئی کمپنیوں نے تقریباً اٹھائیس ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا۔ ان میں زیادہ تعداد اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی تھی۔

جنوبی کوریا: میوزک سے لے کر سیلز گرلز تک، مصنوعی ذہانت کی دنيا

اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں رواں سال ملازمتوں سے نکالنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سن 2021میں صرف 4080 افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا تھا جب کہ سن 2022 میں یہ تعدادبیس ہزار کے قریب تھی۔ لیکن اس سال صرف چھ ماہ کے دوران ہی 28000 سے زیادہ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم کردیے گئے۔

مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بہت سی ملازمتوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے
مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بہت سی ملازمتوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہےتصویر: Guido Kirchner/dpa/picture alliance

تو کیا اے آئی ملازمتوں کو ختم کردے گی؟

مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلجنس کے شعبے میں گُرو سمجھے جانے والے امریکی سائنسدان اور مشہور محقق بین گورٹسل نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا آئندہ چند برسوں میں مصنوعی ذہانت 80 فیصد انسانی ملازمتوں کی جگہ لے سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت امتیازی سلوک کا سبب بن سکتی ہے، رپورٹ

برازیلی نژاد 56 سالہ بین گورٹسل 'سینگولیرٹی نیٹ‘ نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اور شریک بانی بھی ہیں۔ یہ ایک ایسا تحقیقی گروپ ہے، جو ''آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس" یا 'انسانی فکری صلاحیتوں کی حامل مصنوعی ذہانت‘ تخلیق دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ انہوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئےمصنوعی ذہانت کو روکنے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں کی مذمت کی تھی۔

 بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ، ''اگر ہم چاہتے ہیں کہ مشینیں واقعی لوگوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھیں، ہوشیار ہوں اور نامعلوم صورتحال سے نمٹنے میں اتنی ہی چست ہوں، جتنے کہ انسان ہیں تو انہیں اپنی تربیت اور پروگرامنگ سے آگے جا کر مسائل حل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ابھی ہم وہاں تک نہیں پہنچے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم یہ سفر کئی عشروں کی بجائے صرف برسوں میں طے کر لیں گے۔"

خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت کے 'چیٹ جی پی ٹی‘ جیسے پروگرام سامنے آنے کے بعد بعض ناقدین اس شعبے میں تحقیق پر کم از کم چھ ماہ کی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

گورٹسل کا کہنا تھاکہ سماج کو آزاد ہونا چاہییے اور جس طرح انٹرنیٹ پرپابندی عائد نہیں کی گئی ہے اسی طرح اے آئی پر بھی روک نہیں لگائی جانی چاہئے۔ حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں بڑی تعداد میں انسانوں کے ہاتھوں انجام دیے جانے والے کام اے آئی کے ذریعہ انجام دیے جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں،" آپ آرٹیفیشیئل جینریٹیو انٹیلی جنس کے بغیر 80 فیصد انسانی کاموں کو تو ختم ہی سمجھیں۔ چیٹ جی پی ٹی کی کی موجودہ شکل نہیں لیکن آنے والے کچھ سالوں میں ترقی یافتہ سسٹمز کے ذریعے یہ ممکن ہو گا لیکن اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ ایک فائدہ ہے۔ جو کام کاغذوں پر ہوتے ہیں انہیں اب آٹومیٹ (خودکار) ہوجانے چاہییے۔‘‘

مصنوعی ذہانت اب بنائے گی آپ کے کام کو آسان