1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ: فیشن کی دوڑ

سدرہ ارشد بلاگر
11 جولائی 2020

یہ کھیل کچھ دہائیاں پہلے شروع ہوا اوراب باقاعدہ جیسے ایک مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کھیل نام ہے فیشن۔ سدرہ ارشد کا بلاک

https://p.dw.com/p/3f9Zr
DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
تصویر: privat

جسمانی خوبصورتی، کپڑے، جوتے، میک اپ، اٹھنا بیٹھنا، گھر، گاڑی سب فیشن کا حصہ ہیں اور اسی سب میں ہم زندگی کی حقیقی خوشیوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی انسان ایک نارمل زندگی گزار رہا ہے تو وہ بیچارہ ہے، طبقاتی فرق، حرص و ہوس ہماری زندگیوں کا فیشن کے نام پرباقاعدہ حصہ ہے۔ اگر آپ نے اپنے چہرے کے فلرز، بوٹوکس یا کوئی اور تجربہ نہیں کیا تو ایلیٹ کی لسٹ سے باہر ہیں۔ اگر آ پ ڈیزائنر اور برانڈز نہیں پہنتے تو آپ پینڈو ہیں۔ اگر انگریزی اپنے دیسی لہجے میں بولتے ہیں تو آپ وانابی ہیں۔ اگر آپ کانٹے چھری یا چوچسٹک سے نہیں کھاتے تو آپ کو تمیز نہیں ہے۔ اگر آپ کی وارڈروب میں صرف لوکل برانڈز ہیں تو آپ نہایت مڈل کلاسیے ہیں اور اگر آپ ادھ ننگے کپڑے نہیں پہنتے تو آپ فیشن آئیکون نہیں ہیں کیونکہ اگر آپ کو فیشن کی ذرا سی بھی تمیز ہو یا آپ 'فیشن کلین‘  کا حصہ ہوں تو یہ غلطیاں سرزد نہ ہوتیں۔

فیشن کی اندھا دھند دوڑ میں دوڑتے ہوئے کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کے امیر ترین اشخاص جنہوں نے دنیا کا نظام بدل کر ڈیجٹلائز کر دیا، جو بل گیٹس اور اسٹیوجابز کے نام سے جانے ہیں، کس وجہ سے ہمیشہ ایک عام سی جینز اور شرٹ میں نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کو پہننے اوڑھنے کی تمیز نہیں ہے اور وہ استطاعت نہیں رکھتے بلکہ اس لیےکہ ان کو کہاں، کب، کیسے اور کیوں خرچنا ہے کی تمیز اور سلیقہ ہے اور شاید وہ ایک شاندار وارڈروب کے بجائے ایک شاندار لیگیسی چھوڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

جہاں تک بات اداکاروں، فنکاروں، شوبز اور سوشل میڈیا کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ستاروں کی ہے تو یقین مانیے جو وہ لوگ پہنتے اوڑھتے، کھاتے پیتے اور دکھاتے ہیں ان میں سے 80 فیصد سپانسرڈ ہوتا ہے جو تعلقات عامہ کی بنا پر ملتا ہے اور چونکہ یہ ان کے کام کا ایک حصہ ہے تو اس کے پیسے علیحدہ ملتے ہیں۔

کورونا کے خوف سے لوگ سجنا سنورنا ہی نہ چھوڑ دیں
لباس ذہنی صحت پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟

پیرس کا فیشن شو، خواتین کی ترقی اور صنفی برابری کے نام

انفلوئنسرز کس کام کے لیے ہوتے اور ہمارے ہاں وہ کیا کرتے ہیں؟ اس کا جائزہ لیا جائے تو سوائے افسوس ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اگر ان کا کام کپڑے، زیورات اور میک اپ اور سجنے سنورنے تک محدود رہ گیا ہے تو وہ صدیوں سے چلتا آیا ہے یا تو کوئی ڈھنگ کا کام کریں یا خود کو انفلوئنسر کہنا چھوڑیں۔ کیونکہ آج کل کتابوں اور فنون لطیفہ سے دوری کے دور میں نوجوان نسل جو آپ کی اندھا دھند تقلید میں مصروف ہے ان کو فیشن اور ٹرینڈز کی دنیا سے باہر کی سیر پر آمادہ کریں اور جہاں آپ پیسہ خرچنا سکھا رہے ہیں وہاں بچانا اور انویسٹ کرنا بھی سکھائیں۔

جس طرح یہ سب ہماری نئی نسل کے دماغوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اس کا اندازہ ایک سروے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں پروفیشنل تعلیم کے بجائے سوشل میڈیا سلیبرٹی بننے کو ترجیح دینے والوں کی تعداد دوگنا تھی۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں شرح خواندگی پہلے ہی خطرناک حد تک کم ہو یہ کسی ناخوشگوار حادثے سے کم نہیں۔

فیشن ایک ایسی وبا بن چکا ہے جس نے ہمیں چاروں شانے چت کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون، لگژری برانڈز کا حصول، شادی بیاہ کے مواقع پر پانی کی طر ح پیسہ بہانے اور اس کو وائرل بنانے کا پاگل پن ہمیں مکمل تباہ کرچکا ہے۔ مہنگی ترین سجاوٹ، ڈیزائنر ڈریسز اور وائرل اِزم کے چکر میں ہم شادی کو بھی ایک اسٹیٹس سمبل بنا چکے ہیں۔ اس کے پییچھے چاہے ادھار ہو، قرض ہو، گھر گروی رکھوانا پڑے  یا عزت نفس کو مارنا پڑے، شادی تو فیشن کے مطابق ہی ہوگی۔

یہ سبب نا صرف مقابلے کا رجحان بڑھتے ہوئے ذہنی دباؤ، پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے بلکہ کئی نفسیاتی پیچیدگیوں کا بھی باعث ہے جن میں احساس کمتری اور برتری جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، جو بعد میں عمومی رویوں میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں کمزور پر ظلم، لڑائی جھگڑا اور کسی کو بھی سر عام لتاڑ دینا بہت عام سی بات ہے۔ نشے کو لے لیں ایک زمانے میں اسے برائی تصور کیا جاتا تھا لیکن آج کل یہ اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ وہ تمام چیزیں جو اچھے وقتوں میں باقاعدہ برائیوں کے زمرے میں آتی تھیں آج کل فیشن اور ٹرینڈ کے نام پر عام ہیں۔ یہ چورن بکتے بکتے ہماری اقدار، روایات اور عزت نفس کا بیڑہ بالکل غرق کر چکا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم فیشن کو فالو کرنے اور ٹاپ ٹرینڈ بننے کے چکروں میں زندگی کا مقصد گنوا چکے ہیں۔ مقابلے کی یہ دوڑ ہمیں زندگی کے مقاصد سے دور تر لیتی جا رہی ہے۔ نجانے ہم کیوں یہ بھول چکے ہیں فیشن صرف پیسے کے ضیاع اور اسراف کا نام نہیں ہے۔ اگر ٹرینڈز بنانے ہی ہیں تو سادگی، کفایت شعاری اور سلیقہ مندی جیسے ٹرینڈز دوبارہ کیوں نا بنائے جائیں۔ جہیز اور فضول خرچی کا فیشن کیوں نا ختم ہو جس کی زد میں کئی معصوم زندگیاں روزانہ آتی ہیں۔ اگر برابری اور حقوق کی بات آتی ہے تو کیوں نہ تعلیمی معیار کوبہتر بنایا جائے اور برابر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور اچھی تعلیم و تربیت کو فیشن کا لازمی جزو بنایا جائے اور اگر فیشن محض فیشن رہے اسٹیٹس سمبل نہ بنے، تفرقے کا سبب نہ بنے تو کیا ہی اچھا ہو۔ کیونکہ ہم خوبصورت، حسین اور بہترین تب ہی لگتے ہیں جب ہم اپنے آپ میں، اپنی ذات میں خوش اور مطمئین ہوں۔ آخر کو ذہنی اطمینان کم از کم اس دنیا کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

خوبصورتی، ایک مقصد کے ساتھ

 

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشد سدرہ ارشد کا تعلق پاکستان میں لاہور سے ہے اور وہ مختلف سماجی موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں