1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ

10 جنوری 2023

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے مطابق ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کو سنائی جانے والی موت کی سزاؤں کو عوام کو خوف زدہ کرنے اور اختلافی آوازیں دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، جو قابل مذمت ہے۔

https://p.dw.com/p/4LxpR
An Iranian protestor holds a gallows rope as people demonstrate in Lyon, central France
تصویر: Laurent Cipriani/AP/picture alliance

ایران میں گزشتہ برس ستمبر میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے کئی مہینوں سے حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اب تک مظاہرین اور ملکی سکیورٹی اہلکاروں سمیت بہت سے افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ بےشمار شہریوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

’مرگ بر خامنہ ای‘ والی فیس بک پوسٹس کی اشاعت درست ہے، میٹا

گرفتار شدہ مظاہرین میں سے اب تک کم از کم 17 افراد کو ایرانی عدالتیں سزائے موت سنا چکی ہیں۔ ان میں سے چار افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ ایرانی عدلیہ نے ایسے ملزمان کو سزائیں سناتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر لگائے گئے 'خدا کے خلاف جنگ‘ کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

’ریاست کی منظوری سے شہری ہلاکتیں‘

ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کو سنائی گئی موت کی سزاؤں کی دنیا کے مختلف ممالک کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ چار ماہ سے ملک میں جاری مظاہروں کے دوران جن تقریباﹰ ڈیڑھ درجن شہریوں کو موت کی سزائیں سنائی گئیں، ان میں سے ایک تازہ فیصلے میں تین ملزمان کو ملکی سکیورٹی اہلکاروں کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کی ایرانی عدلیہ نے آج منگل 10 جنوری کے روز تصدیق کر دی۔

احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں ایران میں مزید دو افراد کو پھانسی

UN High Commissioner for Human Rights Volker Turk
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترکتصویر: Salvatore Di Nolfi/KEYSTONE/dpa/picture alliance

ایران میں گرفتار مظاہرین کے اہل خانہ کے انٹرویو کرنے پر صحافی گرفتار

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے ایرانی عدلیہ کے فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک جن چار مظاہرین کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے، انہیں دی گئی سزائیں دراصل 'ریاست کی منظوری سے عمل میں آنے والی شہری ہلاکتیں‘ ہیں۔

جنیوا سے موصولہ رپورٹوں میں عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے ہائی کمشر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایران میں عام شہریوں کو دی جانے والی یہ سزائیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے سراسر منافی ہیں۔

فولکر ترک کے الفاظ میں، ''اپنے بنیادی حقوق کو استعمال کرنے والے شہریوں کو سزائیں دینے کے لیے جرائم کی صورت میں قانونی احتساب کے عمل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، جیسا کہ ایران میں عام شہریوں اور شہری تنظیموں کے ارکان کے خلاف کیا جا رہا ہے، بالکل ایسے ہی ہے جیسے ریاست کی اجازت سے انسانوں کو ہلاک کیا جائے۔‘‘

مظاہرین سے یکجہتی کے جرم میں گرفتار ایرانی فلم اسٹار رہا

Iran Mahsa Amini protest Tehran
ایران میں جاری عوامی مظاہروں کے دوران اب تک مظاہرین اور ملکی سکیورٹی اہلکاروں سمیت بہت سے افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: SalamPix/ABACA/picture alliance

منصفانہ عدالتی سماعت کے حق کی نفی

ایران میں جن دو مظاہرین کو سنائی گئی سزائے موت پر ہفتہ سات جنوری کو عمل درآمد کیا گیا، ان کے بارے میں اقوام متحدہ اور کئی مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی میں کئی طرح کے جھول تھے اور انہیں اپنے خلاف مقدمات کی منصفانہ اور شفاف سماعت کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔

ایران میں مظاہرے، اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن

فولکر ترک نے جنیوا میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ جن ایرانی باشندوں کو موت کی سزائیں دی گئیں، انہیں نہ تو ان کی مرضی کے وکیل مہیا کیے گئے اور نہ ہی اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کے بعد بامعنی حد تک اپیل دائر کرنے کا حق دیا گیا۔

انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ سزائیں سنائے جانے سے پہلے ایسے ملزمان کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا تھا۔

ایران میں جب سے ملکی عدلیہ نے حکومت مخالف مظاہرین کو موت کی سزائیں سنانے اور پھر ان سزاؤں پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے بعد سے کئی ماہ سے جاری حکومت مخالف عوامی مظاہرے اب کچھ کم ہو گئے ہیں۔

م م / ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)