1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی

23 اگست 2022

بھارتی ریاست آسام میں مساجد اور اسلامی مدارس سے متعلق بی جے پی کی حکومت کی نئی پالیسیوں سے مسلمانوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اب غیر مقامی آئمہ اور مدارس کے اساتذہ کی حکومتی ویب سائٹ پر رجسٹریشن لازمی ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4FuOi
Indien ASSAM Madrasah Studenten
تصویر: Prabhakar Mani Tewari/DW

بھارتی ریاست آسام میں بی جے پی کی حکومت نے مساجد کے آئمہ اور مدارس کے اساتذہ سے متعلق جو نئے احکامات جاری کیے ہیں، ان کے تحت ایسے تمام افراد کو، جن کا تعلق آسام سے نہ ہو، اب ریاستی حکومت کی ویب سائٹ پر خود کو لازماﹰ رجسٹر کرانا ہو گا۔

ریاستی وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے اس حوالے سے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ حکومت جلد ہی اس کے لیے ایک الگ پورٹل قائم کرے گی اور باہر سے آنے والے ایسے تمام افراد کو وہاں اپنے بارے میں تفصیلات مہیا کرنا ہوں گی، جو ریاست میں قائم مساجد کے امام ہوں یا پھر کسی بھی اسلامی مدرسے میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے ہوں۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں تیس فیصد سے بھی زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اس ریاست کی سرحد بنگلہ دیش سے بھی ملتی ہے۔ اس ریاست میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جو پہلے بھی مسلم اداروں کے حوالے سے متنازعہ پالیسیوں کا اعلان کر چکی ہے۔

وزیر اعلیٰ کیا کہتے ہیں؟

چند روز قبل ہی ریاستی پولیس نے ایک مدرسے سے تعلق رکھنے والے دو ایسے اساتذہ کو گرفتار کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تھا۔ اس کے بعد ہی ریاستی وزیر اعلیٰ نے مساجد اور مدارس کے حوالے سے نئی پالیسیوں کا اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا، ''گرفتار ہونے والوں میں سے ایک، جو ایک مسجد میں امامت کراتا تھا، سرغنہ تھا۔ اس نے کئی دیہات میں اس جہادی نیٹ ورک کو پھیلایا۔ چھ بنگلہ دیشی شہری اس جہادی نیٹ ورک کو پھیلانے کے لیے آسام میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے آسام پولیس نے ایک کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ باقی پانچ ابھی تک مفرور ہیں۔ آسام پولیس اپنی کارروائی جاری رکھے گی۔‘‘

جیسے بابر، اورنگ زیب ختم ہو گئے اویسی بھی ختم ہو جائیں گے

وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا، ''اس سلسلے میں ہم نے اب کچھ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز طے کیے ہیں۔ اب اگر کوئی نیا امام کسی گاؤں میں آتا ہے، تو اس کے لیے تصدیق کی خاطر مقامی پولیس کو مطلع کرنا لازمی ہو گا۔ پولیس کی طرف سے تصدیق کے بعد ہی ایسا کوئی فرد کسی مسجد میں امام کے فرائض انجام دے سکے گا۔ آسام کی مسلم آبادی اس بارے میں ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

Indien, Guwahati | Regierung stellt Minderheitenzertifikate aus
تصویر: Prabhakar Mani Tewari

تاہم انہوں نے کہا کہ ان نئے ضوابط کا اطلاق آسام کے ریاستی رہائشی باشندوں پر نہیں ہو گا، ''آسام میں رہنے والوں کو اپنی تفصیلات درج کرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن جو لوگ ریاست سے باہر کے علاقوں سے آتے ہیں، انہیں اس پورٹل پر اپنی تفصیلات لازماﹰ درج کرانا ہوں گی۔‘‘

نئی پالیسی کے تحت ریاست کے باہر سے آنے والے کسی بھی امام یا مدرسے کے کسی بھی استاد کو پہلے خود کو رجسٹر کرانا ہوگا اور پولیس کی طرف سے منظوری کے بعد وہ اپنے فرائض انجام دے سکیں گے۔ بصورت دیگر متعلقہ افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے حال ہی میں کہا تھا کہ آسام 'جہادی سرگرمیوں‘ کا گڑھ بن چکا ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیشی دہشت گرد گروہ انصار الاسلام سے تعلق رکھنے والے پانچ 'ماڈیولز‘ کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

بھارتی ميڈیا کے مطابق پولیس نے رواں برس مارچ سے اب تک 40 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے اور خاص طور پر زیریں اور وسطی آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں کی سخت نگرانی جاری ہے۔

دو روز قبل ہی آسام کے گولپارہ ضلع میں گرفتار کیے گئے دو علماء پر ریاست میں مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی پر اکسانے کا الزام عائد کیا گيا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں اس خطے میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے لیے کام کرتے تھے۔

بھارت: مسلمانوں کی فیملی پلاننگ پر بی جے پی کا نیا شوشہ

گزشتہ جون میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ اقلیتی فرقے (مسلمانوں) کو اپنی غربت اور دھرتی پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی خاطر فیملی پلاننگ کے مناسب طریقے اختیار کرنا چاہییں۔

بی جے پی بالخصوص آسام میں مبینہ طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مسلمان تارکین وطن کے مسئلے کو ایک بڑے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور سکیورٹی مسئلے کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اکثر تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔

مسلم سماجی اور سیاسی تنظیمیں ریاستی وزیر اعلیٰ کے مسلمانوں کے حوالے سے متنازعہ بیانات پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق مساجد اور مدارس سے متعلق نئے ضوابط سے آسانیاں پیدا ہونے کے بجائے ریاست کے مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے محروم