1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبی ماہرین کے دورے کا التواء: کیا کشیدہ تعلقات کا نتیجہ ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
26 ستمبر 2018

بھارت کی طرف سے پاکستانی آبی ماہرین کے معائنے کو ملتوی کیے جانے کی خبر نے پاکستان میں کئی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

https://p.dw.com/p/35XzX
تصویر: DW/A. Chatterjee

پلاننگ کمیشن کے ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’انڈس واٹر کمیشن اور متعلقہ اداروں میں اس التواء سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ التواء غیر معینہ مدت کے لیے ہے۔ کمیشن میں کوئی اس التواء کی امید نہیں کر رہا تھا۔ بھارت نے التواء کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی۔ کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں میں یہ تاثر ہے کہ یہ سب کچھ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان تندو تیز بیانات کا شاخسانہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت ’پاکستان انڈیا پرمننٹ کمیشن فار انڈس واٹرز‘ کے پلیٹ فارم پر ہوتی ہے۔ کمیشن کا اجلاس اگست کے مہینے میں لاہور میں ہوا تھا، جہاں پاکستانی آبی ماہرین نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقاتیں کیں تھیں۔ ان ملاقاتوں میں پاکستان نے بھارت کے دو آبی پروجیکٹس ۔Pakal Dul اورLower Kalnal۔کے ڈیزائن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس پر بھارت نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ پاکستان آبی ماہرین کو ان منصوبوں کا معائنہ کرنا چاہیے۔ معائنہ ستمبر کے آخر میں ہونا تھا لیکن بعد میں سات سے گیارہ اکتوبر کی تاریخ دی گئی اور اب اسے بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔

Indien Tehri Damm
تصویر: Imago/Indiapicture

اس افسر نے التواء پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’آبی پروجیکٹس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کس ملک نے تعمیرات کو کس حد تک پہنچایا ہے۔ اگر بھارت طویل التواء کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان آبی پروجیکٹس پر کام بھی جاری رکھتا ہے، تو اس سے پاکستان کے لیے پریشانی ہوگی۔ ہمارے لیے یہ تشویش ناک بات ہوگی کیونکہ پھر نئی دہلی یہ کہہ گا کہ اب یہ منصوبے تعمیر آخری مراحل میں ہیں اور ایسے میں ان کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔‘‘
کئی ماہرین اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک تکنیکی امور کو بھی سیاست کی نظر کر رہے ہیں، جو بہت منفی ہے۔

Tehri Damm in Indien
تصویر: CC/Arvind Iyer


آبی امور کے ماہر ڈاکڑ عارف محمود نے اس التواء پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا ،’’بھارت نے تیکنکی امور کو بھی سیاست کی نظر کر دیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ماہرین کو آبی منصوبوں کا معائنہ کروائیں۔ تاہم وہ اس بات کے مجاز بھی ہیں کہ ایسے معائنے کی تاریخ اور وقت کا تعین وہ خود کریں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے ماہرین نے متعدد مرتبہ ایک دوسرے کے منصوبوں کے معائنے کیے ہیں۔ اس بار ایسا اس لیے ہوا ہے کہ دونوں ممالک میں کشیدگی ہے۔‘‘

 ڈاکڑ عارف محمود کے بقول پہلے کہا گیا کہ بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور پھر کہا گیا کہ پنچائیت کے انتخابات ہو رہے ہیں،’’بنیادی طور پراس التواء کے تانے بانے وزراء خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کی منسوخی سے ملتے ہیں۔ جو پاک بھارت کشیدگی کے پیشِ نظر ملتوی کی گئی۔ میرے خیال میں جب تک یہ تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، بھارت اسی طرح بہانے بازی کرتا رہے گا۔‘‘

پلاننگ کمیشن کے سابق سیکریڑی اور ممتاز ماہر آبی امور فضل اللہ قریشی کے خیال میں اگر بھارت اس التواء کو منسوخی میں تبدیل کرتا ہے، تو قانونی طور پر اس کو نقصان ہو گا، ’’بھارت اس بات کا پابند ہے کہ وہ پاکستانی آبی ماہرین کو معائنے کی اجازت دے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر پاکستان عالمی بینک سے رجوع کر سکتا ہے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی جا سکتا ہے، جہاں نئی دہلی کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک پر لازم ہے کہ وہ آبی منصوبوں  کے حوالے سے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کا میڈیا آبی مسائل کو سیاسی رنگ دے رہا ہے، جو بہت تشویشناک ہے، ’’بھارت میں الیکشن ہورہے ہیں۔ اس لیے وہ پانی کے مسئلے کو اچھال رہے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ التواء وقتی ہے۔ بالاخر نئی دہلی کو اجازت دینے ہی پڑے گی۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اس التواء کو مودی کی سخت گیر پالیسی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے،’’میرے خیال میں بھارت انتخابات سے پہلے پاکستان سے کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتا۔ اگر کوئی ہنگامی صورتِ حال ہوئی تو شاید کوئی ان سے براہ راست رابطہ کر لیا جائے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک میں پانی کی شدید قلت ہے، بھارت کی طرف سے ایسے منصوبوں کے معائنے کو ملتوی کرنا، جو پاکستان کے آبی مسائل کو بڑھا سکتے ہیں، بہت تشویشناک ہے۔ حکومت کو اس التواء کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ مہر علی شاہ سے متعد د پر فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون بند تھا۔

دنیا کے اسمارٹ ترین ڈیم میں کیا ہے خاص بات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں