1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت آبی تنازعات، کیا مسائل کے حل کی کوششوں پر پانی پھر جائے گا ؟

1 اپریل 2010

لاہور میں منعقدہ سندھ طاس کمیشن کے اجلاس میں آبی تنازعات کے حل کیلئے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آ سکی، لیکن پھر بھی پاکستان اور بھارت کے سندھ طاس کمشنروں کو امید ہے کہ پانی کے مسئلے بات چیت سے ہی حل ہو سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/MjPA
تصویر: DW

ڈوئچے ویلے سےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ نے بتایا کہ اگر سندھ طاس معاہدے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ اس معاہدے کی بدولت پاکستان اور بھارت اپنے بیشتر آبی تنازعات حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر مؤثر عمل درآمد کی وجہ سے ہی پاکستان کو اس کے حصے کے دریائی پانی کی مطلوبہ مقدار کا ملنا ممکن ہو سکا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں بھارت کی طرف سے پاکستان کا پانی روکے جانے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر کا کہنا ہے کہ واپڈا اور محکمہ آبپاشی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اگر 1923میں 117 ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستانی علاقوں میں پہنچتا تھا تو اس سال بھی 118 ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان کو ملا ہے ۔ ان کے مطابق اس سے پچھلے سال بھی پاکستان کو ملنے والے پانی کی مقدار 126.8 ملین ایکڑ فٹ تھی ۔ ان کے مطابق موسمی حالات کی وجہ سے پانی میں ہونے والی کمی ایک الگ بات ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس کے حصے کا پانی مل رہا ہے۔ ان کے مطابق 1960میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت کو پاکستان آنے والے دریاؤں پر مخصوص آبی منصوبوں کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی لیکن بھارت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان منصوبوں کے ڈیزائن اور تعمیر میں سندھ طاس معاہدے میں کئے گئے رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھے گا۔

Brückeneinsturz in Kaschmir
اجلاس میں پاکستان کی طرف سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بنائے جانے والے آبی منصوبوں پر آٹھ اعتراضات پیش کئے گئے۔تصویر: AP

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض اوقات پاکستان کی طرف سے بعض ایسے منصوبوں پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جن کا پاکستان کو فوری طور پر توکوئی نقصان نہیں ہوتا۔ تاہم ان کے مطابق پاکستان کوئی ایسی مثال قائم نہیں ہونے دینا چاہتا جس کے نتیجے میں کسی اور منصوبے پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نکل سکے۔ جماعت علی شاہ کے مطابق اگر بھارتی حکومت بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کرے تو پاک بھارت آبی تنازعات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی طرف سے اعتراضات اٹھائے جانے کی صورت میں وفاقی حکومت انہیں سندھ طاس کمیشن کی طرف رجوع کرنے کا کہتی ہے اور بھارتی سندھ طاس کمشنر پاکستانی اعتراضات اٹھنے پر مرکزی حکومت سے رہنمائی کا بہانہ بناتا ہے اس وجہ سے آبی مسائل کا حل تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈس واٹر کمیشن کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بنائے جانے والے آبی منصوبوں پر آٹھ اعتراضات پیش کئے گئے۔ پاکستان کی طرف سے ان دریاؤں پر پانی کی مانیٹرنگ کیلئے ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ ان اختلافی امور پر اب بات چیت مئی کے آخری ہفتے میں کمیشن کے اس اجلاس میں ہو گی جو دہلی میں ہونے والا ہے۔

ادھر بھارتی واٹر کمشنر اورنگا ناتھن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے آبی تنازعات باہمی بات چیت کے ذریعے خود حل کر سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق اگر ان تنازعات کے حل کیلئے کسی تیسرے فریق کی مدد بھی لی گئی تو انہیں دکھ ہوگا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ۔ ان کے مطابق ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے برپا کئے جانےوالا شور حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

ممتاز تجزیہ نگار اقبال احمد خان کہتے ہیں کہ پانی کا مسئلہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری میں ایک رکاوٹ کے طور پر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے خیال میں آبی تنازعات کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کو باہمی اعتماد کو فروغ دینا ہو گا۔

رپورٹ : تنویرشہزاد، لاہور

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں