1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین میں فوجی مداخلت خارج از امکان: جرمنی اور نیٹو کا موقف

17 مارچ 2022

جرمن چانسلر اولاف شولس نے واضح کر دیا ہے کہ نیٹو کی طرف سے یوکرینی تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ساتھ ہی نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کا ہدف اس مسلح تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔

https://p.dw.com/p/48dlI
Berlin Jens Stoltenberg Olaf Scholz
جرمن چانسلر، دائیں، اور نیٹو سربراہ کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب یورپی یونین کی اگلی سربراہی کانفرنس بس ہونے ہی والی ہےتصویر: Michael Sohn/AP Photo/picture alliance

وفاقی جرمن چانسلر شولس اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ اسٹولٹن برگ کی سترہ مارچ جمعرات کے روز برلن میں ہونے والی ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب یورپی یونین کی اگلی سربراہی کانفرنس بس ہونے ہی والی ہے۔ اس ملاقات سے کچھ دیر قبل جمعرات ہی کے روز یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف سے ویڈیو رابطے کے ذریعے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے ارکان سے خطاب بھی کیا تھا۔

چانسلر شولس کے دو ٹوک الفاظ

باہمی ملاقات کے بعد شولس اور اسٹولٹن برگ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس کی ابتدا میں جرمن سربراہ حکومت نے صدر زیلنسکی کے بنڈس ٹاگ سے خطاب اور ان کے 'متاثر کن الفاظ‘ پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن ساتھ ہی چانسلر شولس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ نیٹو اتحاد یوکرین میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔

بائیڈن کا پوٹن کو جنگی مجرم کہنا 'ناقابل قبول اور ناقابل معافی' ہے، روس

جرمن سربراہ حکومت نے کہا، ''ایک بات بالکل واضح کر دی جانا چاہیے: مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اس جنگ میں فوجی سطح پر کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔‘‘

Bundestag Wolodymyr Selenskyj Ukraine
یوکرینی صدر زیلنسکی کییف سے ویڈیو رابطے کے ذریعے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

نیٹو کی ذمہ داری

جرمن چانسلر کے انہی الفاظ کا اعادہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے بھی اپنے بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو نے اگر یوکرین کے تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت کی، تو اس تنازعے کے مزید پھیل جانے کا امکان اور زیادہ ہو جائے گا۔ نیٹو کے سربراہ نے کہا کہ اس جنگ میں اس عسکری اتحاد کا کردار تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔

چین اپنے دوست روس کی مدد کے لیے کیا کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے؟

ژینس اسٹولٹن برگ نے جرمن چانسلر کی موجودگی میں کہا، ''نیٹو کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس تنازعے کو اور بھی شدید تر ہو جانے سے روکے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ بحران خطرناک تر ہو جائے گا اور اس سے انسانی مصائب، ہلاکتیں اور تباہی سب کچھ کہیں زیادہ ہو جائے گا۔‘‘

یوکرین کی بار بار کی گئی درخواست

یوکرین پر روس کی طرف سے فوجی چڑھائی کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ اب اپنے چوتھے ہفتے میں ہے۔ اس عرصے کے دوران یوکرین کی طرف سے یورپ اور نیٹو سے بار بار مدد کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر اہم یہ درخواست بھی تھی کہ نیٹو یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے کر ان حدود کی حفاظت بھی کرے۔

یوکرین جنگ میں روس کی مدد کرنے پر چین کوامریکہ کی دھمکی

یوکرین بحران: جرمن چانسلر شولس اور ترک صدر ایردوآن کی ملاقات

اس سلسلے میں یوکرین میں نو فلائی زون کے قیام سے متعلق لیتھوانیا کی پارلیمان نے تو متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کر لی تھی۔ اسی مجوزہ ممنوعہ فضائی علاقے کے قیام کے کییف کے مطالبے کی ایسٹونیا اور سلووینیا جیسے ممالک نے بھی کھل کر حمایت کی تھی۔ تاہم اس بارے میں نیٹو اور یورپی یونین کے رکن اکثر ممالک کا موقف یہ تھا کہ یوکرین کی فضائی حدود میں ایسے کسی نو فلائی زون کا قیام اس جنگ میں فوجی سطح پر عملی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔

نیٹو کی طرف سے جرمنی کے کردارکی تعریف

نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے دائرہ کار میں جرمنی کے کردار کو بھی سراہا۔ اسٹولٹن برگ نے کہا، ''یورپ کے وسط میں واقع جرمنی بحر اوقیانوس کے آر پار کے تعلقات میں دل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ نیٹو کے سربراہ کے مطابق روس اور یورپ کے مابین موجودہ بحران میں بھی جرمنی اور جرمن قیادت کا کردار ناگزیر اہمیت کا حامل ہے۔

یورپ ہتھیار ایکسپورٹ کرنے والوں کی توجہ کا اہم مرکز، سپری

ژینس اسٹولٹن برگ کے مطابق، ''جرمنی نے اب تک عسکری، انسانی بنیادوں پر امداد اور سیاسی حمایت کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کی ہے، وہ قابل تعریف ہے اور ساتھ ہی برلن حکومت کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے کہ اس نے یوکرینی مہاجرین کی بڑی تعداد کو بھی ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔‘‘

م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)