1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین روس جنگ، بھارت کیوں پریشان

14 مارچ 2022

بھارت روسی ہتھیاروں کی فراہمی میں ممکنہ رکاوٹ سے بچنے کے لیے مختلف طریقوں کی تلاش میں ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد روس پر امریکی پابندیوں نے جوہری طاقت بھارت کو ہتھیاروں کی درآمدات کے سلسلے میں خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/48S6v
Indiens Premierminister Modi spricht bei CSIR-Treffen
تصویر: PTI/dpa/picture alliance

 

بھارت یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب واشنگٹن کی طرف سے ماسکو پر لگنے والی پابندیوں سے پریشان ہے۔ یوکرین پر ماسکو کی چڑھائی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو روسی ہتھیاروں کی سپلائی میں رکاوٹ کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے، خاص طور سے چین کے ساتھ مسلسل چلے آ رہے سرحدی تعطل کے ضمن میں۔

بھارتی ریاست اروناچل پردیش پر بھارت اور چین میں تلخی

 

بھارتی دفاعی سازوسامان

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا 60 فیصد تک دفاعی سازو سامان روس سے آتا ہے۔ اس وقت چین اور بھارت دونوں کو ایک انتہائی نامناسب وقت میں سرحدی کشیدگی کا سامنا ہے۔ دو سال قبل مشرقی لداخ کے علاقائی تنازعے نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے مزید دور کر دیا ہے۔ مذکورہ تنازعے کے سبب دونوں ملکوں کے کئی ہزار فوجی سرحد کے آر پار کھڑے ہیں۔ 2020ء میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں 20 بھارتی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ حال ہی میں اپنے ایک بلاگ میں بھارت کے سابقہ سکریٹری خارجہ شیام سرن نے لکھا تھا،''بھارت کے لیے یہ امر ایک بھیانک خواب سے کم نہ ہو گا کہ امریکہ اس نتیجے پر پہنچتے ہوئے  کہ اسے روس کی طرف سے ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے، چین کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کی بحالی کو جواز کے طور پر پیش کرے، یعنی واشنگٹن  ایشیا میں چینی تسلط کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کی حفاظت شروع کر دے ، ساتھ ہی یورپی سرحدوں کی بھی نگرانی کرے۔ ‘‘

چینی فوجی ’اتر اکھنڈ میں داخل ہوئے‘، مگر بھارت خاموش کیوں؟

 

AN-32 Indian Air Force
بھارتی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ AN-32تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Quraishi

 دیگر مضمرات

یوکرین اور روس کے تنازعے کے تناظر میں بھارت کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر نعیم احمد کا ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا،''یہ حقیقت ہے کہ روس اور بھارت کے تعلقات بہت پرانے اور دیرپا ہیں۔ نائن الیون کے بعد بھارت امریکہ کے قریب آیا ہے لیکن اس کا ماسکو اور نئی دہلی کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ ان دونوں کے تجارتی اور عسکری تعلقات اب بھی گہرے ہیں۔ حالانکہ روس نے انڈو۔یو ایس نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن بھارت کا روس سے کیونکہ دیرینہ تعلق رہا ہے اور وہ اُسی طرح قائم رہے گا۔‘‘

لداخ: چین ایک اور مقام سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر متفق

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم کا تاہم کہنا ہے کہ اس نئی صورتحال میں علاقائی سطح پر چین کی حیثیت ایک اور اہم مہرے کی بن گئی ہے۔ روس اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے چین اور پاکستان کے تعلقات کو دیکھنا ہو گا کیونکہ کچھ عرصے سے چین اور روس کے تعلقات بہت دوستانہ اور اسٹریٹیجک ہو چُکے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم نے اس امر کی نشان دہی کی کہ روس یوکرائن تنازعے کے دوران ایک نئی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ کہ،''روس بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نئی دہلی پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کرے۔ خاص طور پر کشمیر کا تنازعہ۔ کیونکہ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات بحال ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ روس کو ہو گا۔ اس میں ماسکو کا معاشی اور اسٹریٹیجک مفاد ہے۔ پاکستان کے تعلقات حالیہ دنوں میں روس کے ساتھ بہت بہتر ہوئے ہیں، خاص طور پر اقتصادی شعبے میں۔‘‘  

متنازعہ سرحدی علاقوں سے بھارتی اور چینی افواج کا انخلا

ڈاکٹر نعیم احمد کے بقول،''اس تمام گیم پلان میں سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہو گا کیونکہ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آتی ہے تو اس کا مثبت اثر چین اور بھارت کے تعلقات پر بھی ہو گا۔‘‘

        

Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
چین اور بھارت کے فوجی متنازعہ سرحد پر ایک دوسرے کے آمنے سامنےتصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کا موقف

کیا یوکرین سے سبق سیکھتے ہوئے چین متنازعہ مشرقی لداخ یا تائیوان میں جارحیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ جیتندر ناتھ مشرا ریٹائرڈ بھارتی سفارتکار اور جندال اسکول آف انٹر نیشنل افیئرز کے ایک ممتاز فیلو اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں،''چین کی اس جارحیت کے امکانات بہت قوی ہیں۔‘‘ روس یوکرین تنازعے کے ضمن میں اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ میں بھارت نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔ اُس کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت کے ساتھ چند ہنوز حل طلب اختلافات کا ذکر کیا۔ اُدھر نریندر مودی اب تک یوکرین پر روس کی چڑھائی کے سبب اقوام متحدہ کی قرار داد پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے روسی صدر پوٹن کی کوئی مذمت نہیں کی گئی۔ 

بھارت کے حوالے سے امریکی بیان پر چین کا سخت رد عمل

مشرا نے مزید کہا کہ امریکا نے اب تک بھارت کو ٹیکنالوجی کی فراہمی پر کسی قسم کی آمادگی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''میں اپنے امریکی دوستوں سے پوچھتا ہوں وہ کس قسم کے دفاع کی بات کر رہے ہیں؟ امریکا جو پیشکش کر رہا ہے وہ F-16 لڑاکا طیارے ہیں، جنہیں اب F-21 طیاروں کا نیا نام دیا گیا ہے۔ یہ بھارتی نقطہ نگاہ سے بالکل متروک یا فرسودہ ہو چُکے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں بھارت نے امریکا سے F-104 فائٹر جیٹس کی بات کی تھی لیکن امریکا نے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد ہم نے Mig-21 کے لیے امریکا سے رجوع کیا تھا۔ اب ایک بار پھر ہمیں ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔‘‘

لداخ کشیدگی، ’چین اپنی ایک انچ زمین پر بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا‘

بھارتی دفاعی تجزیہ کار جیتندر ناتھ مشرا نے AUKUS معاہدے کی مثال دیتے ہوئے ایک اور اہم نقطے کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا،''امریکہ اس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کے ساتھ آبدوزوں کے لیے نیوکلیئر پروپلیشن ٹیکنالوجی شیئر کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بھارت کے ساتھ اس کے اشتراک کے لیے تیار نہیں۔ یہ سہ فریقی معاہدہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین ہوا ہے۔‘‘ 

 

ک م/ ع ا) اے پی(