1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ پہنچنے کے لیے’نئے بلقان روٹ‘ کے استعمال میں اضافہ

صائمہ حیدر انفو میگرانٹس
17 فروری 2018

مہاجرین کی ایک بڑی تعداد مغربی یورپ میں داخلے کے لیے سربیا اور مونٹی نیگرو کے راستے بوسنیا پہنچ رہی ہے۔ بوسنیا میں امیگریشن حکام کے مطابق ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق شام، الجزائر، پاکستان اور افغانستان سے ہے۔

https://p.dw.com/p/2srCo
Kroatien Bapska Flüchtlingslager Erstaufnahmeeinrichtung
اس رو‌ٹ کو استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین شامل ہیںتصویر: picture-alliance/ABACAPRESS/M. Amoruso

 مہاجرین کے حوالے سے تازہ ترین خبریں اور اطلاعات شائع کرنے والی یورپی ویب سائٹ ’انفو مائیگرنٹس‘ نے بوسنیا کی بارڈر پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2018 کے آغاز ہی میں بوسنیا پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد چار سو ساٹھ کے قریب ہو گئی ہے جبکہ گزشتہ تمام برس میں یہ تعداد سات سو چون رہی تھی۔

بوسنیا میں امیگریشن کے عملے کا کہنا ہے کہ یہ مہاجرین مغربی یورپ کی طرف اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے بوسنیا میں دو سے تین راتیں قیام کرتے ہیں۔

 ان مہاجرین میں سے بعض نے پہلے بھی سربیا کے راستے یورپی یونین ملک ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم انہیں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ اب یہ تارکین وطن مونٹی نیگرو سے بوسنیا اور پھر وہاں سے کروشیا داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Flüchtlinge Ungarn
تصویر: Reuters/M. Djurica

ان پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، الجزائر اور افغانستان سے ہے۔ کچھ روز قبل کروشیا کے ذرائع ابلاغ نے ایک نیا ’بلقان رو‌ٹ‘ بننے کے حوالے سے خبر دی تھی جو مشرق وسطیٰ سے آنے والے مہاجرین کے زیر استعمال ہے تاکہ وہ یورپ پہنچ کر بہتر زندگی کا آغاز کر سکیں۔

 زغرب میں ایک مقامی اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ جب سے مقدونیا اور سربیا کا روایتی روٹ بند ہوا ہے، مہاجرین اب یونان سے البانیہ، مونٹی نیگرو، بوسنیا ہرزیگووینیا اور پھر وہاں سے کروشیا اور سلووینیا کے ممالک پہنچتے ہیں۔

 اخبار کے مطابق،’’ اگرچہ اس نئے روٹ کے بارے میں اب تک بہت کم لکھا گیا ہے تاہم یورپ مہاجرت کے لیے اس راستے کے استعمال میں بہت اضافہ ہوا ہے۔‘‘

اس رو‌ٹ کو استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین شامل ہیں تاہم شمالی افریقی ممالک الجزائر اور مراکش کے تارکین وطن بھی یورپ پہنچنے کے لیے یہ راستہ استعمال کر رہے ہیں۔