1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولیورپ

یورپ میں پانی کا بحران، خشک سالی سے دریا بھی خشک ہونے لگے

6 جولائی 2022

شدید خشک سالی، کم بارشوں اور دستیاب آبی وسائل کے بے دریغ استعمال کے باعث یورپ کے کئی حصوں خاص کر جنوبی یورپی ممالک میں پینے کا پانی کمیاب ہو گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب پورے براعظم میں محسوس کیے جانے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4DkdE
اسپین کے مجموعی زمینی رقبے کے دو تہائی حصے کے صحرا میں بدل جانے کا خطرہ ہےتصویر: PIERRE-PHILIPPE MARCOU/AFP/Getty Images

جنوبی یورپی ممالک میں اب شدید گرمی کی لہریں اور لمبے عرصے تک جاری رہنے والی خشک سالی کے واقعات اس لیے بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں کہ ان میں انسانوں کی طرف سے وہاں دستیاب پانی کے ذخائر کے حد سے زیادہ استعمال اور انسانوں ہی کے طرز زندگی کی وجہ سے آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی کلیدی کردار ہے۔

پانی کا ساٹھ فیصد استعمال زرعی شعبے میں

پرتگال سے لے کر اٹلی تک کی حکومتیں اب عام شہریوں سے کہہ رہی ہیں کہ وہ کم سے کم پانی استعمال کریں۔ لیکن کئی ممالک میں اگر اس تجویز پر عمل کیا بھی گیا، تو بھی یہ کافی ثابت نہیں ہو گی۔

گرمی سے دریائی پانی بھی گرم، ایٹمی بجلی گھر کی بندش کا فیصلہ

پوری یورپی یونین میں ہر سال جتنا بھی پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کا صرف نو فیصد عام گھروں میں نجی طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس پانی کا 60 فیصد حصہ زرعی شعبے کے استعمال میں آتا ہے۔

یورپی ماحولیاتی ایجنسی ای ای اے کے آبی امور کے ماہر نیہات زال کہتے ہیں، ''خشک سالی کے واقعات تو صرف ایک پہلو ہیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم ہر سال کتنا پانی اپنے آبی نظام سے نکال دیتے ہیں۔‘‘

BG  -  Italien Dürre
اٹلی کو اس وقت گزشتہ ستر برسوں کی بدترین خشک سالی کا سامنا ہےتصویر: IPA/ABACA/picture alliance

اٹلی

اس وقت پورے یورپ میں سب سے زیادہ ڈرامائی صورت حال شمالی اٹلی میں پائی جاتی ہے، جہاں گزشتہ 70 برسوں کے دوران نظر آنے والی بدترین خشک سالی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اٹلی کے اس حصے میں 100 سے زائد شہروں کو اپنے ہاں پانی کا استعمال کم سے کم کر دینے کے لیے کہا جا چکا ہے۔

پیر چار جولائی کے روز اطالوی حکومت نے ملک کے پانچ خطوں میں اس سال کے آخر تک کے لیے ہنگامی صورت حال کا اعلان بھی کر دیا۔ اس کے علاوہ روم حکومت ان علاقوں میں پانی کے بحران کے فوری حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر 36 ملین یورو بھی فراہم کر رہی ہے۔

سمندر میں ڈوبنے سے بچے تو دریا میں ڈوب گئے

اٹلی کے سب سے بڑے دریا کا نام پو ہے۔ دورا بالٹیا بھی ملک کا ایک بڑا دریا ہے۔ کئی ماہ سے خشک سالی اور سردیوں میں بھی بارشوں کا بہت کم رہنا اس بات کا سبب بنے کہ ان دونوں دریاؤں میں پانی کی موجودہ سطح معمول سے آٹھ گنا کم ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ یہی دونوں دریا یورپ کے اہم ترین زرعی علاقوں میں سے ایک کو پانی کی فراہمی کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس علاقے میں خشک سالی کے باعث زرعی پیداوار میں 30 فیصد تک کمی کا خطرہ ہے۔

Portugal Wasserknappheit
جہاں کبھی کئی کئی میٹر گہرا پانی ہوتا تھا، دریا کی تہہ میں اب خشک مٹی پر کھڑی کشتیاں: پرتگال نے خشک سالی سے نمٹنے کی تیاریاں گزشتہ برس ہی شروع کر دی تھیںتصویر: CARLOS COSTA/AFP/Getty Images

کھیل کے میدانوں کو پانی لگانا بھی منع

اطالوی شہر ویرونا کے مئیر نے اگست کے آخر تک باغات کو پانی دینا، کھیل کے میدانوں کو پانی لگانا، کاریں یا گھروں کے صحن دھونا حتیٰ کہ سوئمنگ پولز کو پانی سے بھرنا بھی ممنوع قرار دے دیا ہے۔

اس اقدام کا مقصد پینے کے صاف پانی کی کافی دستیابی کو یقینی بنانا ہے جبکہ سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والے باغات کو بھی پانی صرف رات کے وقت دیا جا سکتا ہے۔

یورپ: دریاؤں کے کنارے سرسبز پارک

اطالوی شہر پیسا کو بھی پانی کی راشن بندی کرنا پڑ گئی۔ رواں مہینے وہاں پینے کا پانی صرف گھریلو استعمال یا صفائی سھترائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے ہر شہری کو 500 یورو تک جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔

یہی نہیں بلکہ میلان میں تو اس شہر کی آرائش و زیبائش کے لیے استعمال ہونے والے تمام فوارے بھی بند کیے جا چکے ہیں۔

Spanien Iberien Dürre
فروری میں اسپین میں خشک سالی کی وجہ سے ایک ایسا پرانا گاؤں دوبارہ منظر عام پر آ گیا تھا، جو عشروں پہلے پورے کا پورا دریا میں ڈوب گیا تھاتصویر: Emilio Morenatti/AP/picture alliance

پرتگال

پرتگال نے سال بھر جاری رہنے والی خشک سالی کی تیاری گزشتہ موسم سرما میں ہی شروع کر دی تھی۔ سال رواں کے آغاز پر کم بارشوں اور ڈیموں میں پانی کی بہت نیچے جا چکی سطح کے باعث حکومت نے آبی بجلی گھروں کا استعمال پورے ہفتے میں صرف دو گھنٹوں تک کے لیے محدود کر دیا تھا۔

اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ 10 ملین کی آبادی والے ملک پرتگال میں عام شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی دستیابی کو کم از کم اگلے دو برسوں تک کے لیے یقینی بنایا جا سکے۔

بنگلہ دیش کا نیا طویل ترین پل عوام کے لیے کھول دیا گیا

اس کے باوجود حالات نے اتنا برا رخ اختیار کیا کہ اس سال مئی کے آخر تک  پرتگال کا 97 فیصد علاقہ شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔

بحیرہ روم کے کنارے واقع ممالک میں شدید خشک سالی کا عرصہ اور تواتر تقریباﹰ دو گنا ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ جنوبی یورپی علاقے تو ایسے بھی ہیں، جہاں گزشتہ تقریباﹰ ایک ہزار سال سے اتنا زیادہ خشک موسم کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

عراق میں آثار قدیمہ کا خزانہ: دجلہ کے پانیوں سے قدیم شہر دوبارہ ابھر آیا

یورپی ماحولیاتی ایجنسی ای ای اے کے آبی امور کے ماہر نیہات زال کے مطابق، ''اپنے آبی ذریعے سے کسی دریا یا صنعتی علاقے تک پہنچتے پہنچتے اوسطاﹰ قریب 25 فیصد تازہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح ہم غیر معمولی حد تک زیادہ پانی بچا سکتے ہیں۔‘‘

اسپین

اسپین کو بھی بڑے تواتر سے انتہائی بری خشک سالی کا سامنا ہے اور اس ملک کے مجموعی زمینی رقبے کے دو تہائی حصے کے صحرا میں بدل جانے کا خطرہ ہے۔

ملکی محکمہ موسمیات کے مطابق گزشہ موسم سرما 1961ء کے بعد ملکی تاریخ کا سردیوں کا خشک ترین موسم تھا اور ماضی میں بہت زرخیز رہنے والی زرعی اراضی اب ریتلی زمینوں میں بدلتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں پانی کی قلت شدید

انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر

اسپین کے شمال میں 17 علاقے ایسے ہیں، جہاں اس سال فروری میں ہی پانی کی فراہمی کے حوالے سے بہت سخت فیصلے کرنا پڑ گئے تھے۔ مثلاﹰ کاتالونیا کے علاقے کے چھوٹے سے قصبے کامپیلیس میں تو گھروں کے نلوں میں پانی ابھی تک روزانہ صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی آتا ہے۔

اسپین پوری یورپی یونین میں سب سے زیادہ زرعی پیداوار والا تیسرا بڑا ملک ہے اور وہاں دستیاب تازہ پانی کا 70 فیصد حصہ زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آپ پانی کتنا ضائع کرتے ہیں؟

تحفظ ماحول کی بین الاقوامی تنظیم گرین پیس کی ہسپانوی شاخ کے مرکزی عہدیدار خوآن بارییا کہتے ہیں، ''پانی کی طلب اتنی ہے کہ اس میں اضافہ ہونا ختم ہی نہیں ہوتا۔ لیکن بجائے اس کے کہ ہم پانی کی بچت والی پالیسیاں اپنائیں، ہمارا ردعمل ایسا ہے کہ جیسے اسپین کے پاس بھی اتنا ہی پانی ہو، جتنا مثلاﹰ شمالی یورپ میں ناروے یا فن لینڈ کے پاس۔ حالانکہ در حقیقت آبی وسائل کی دستیابی کے حوالے سے ہم بالکل ویسے ہی ہیں، جیسے شمالی افریقی ممالک۔‘‘

م م / ک م (ٹم شاؤن بیرگ)