1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی جنگ شہد کی مکھیاں بھی کھا گئی

30 جولائی 2022

یمن میں شہد کی پیداوار کا کاروبارہ انتہائی منافع بخش ہوا کرتا تھا، مگر برسوں سے جاری جنگ نے اس کاروبار سے جڑے لوگوں کو بھی تباہ حال بنا دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Etxi
Bienen
تصویر: Photoshot /picture alliance

محمد سیف کسی دور میں شہد کی پیدوار کا منافع بخش کاروبار کیا کرتے تھے۔ لیکن جنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے سیف سے اس کاروبار کا نفع چھین لیا ہے اور اب وہ ایک خستہ حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں سیف کہتے ہیں کہ ان کا کئی پشتوں سے چلا آ رہا یہ کاروبار اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ''شہد کی مکھیوں کو کسی عجیب سی شے نے متاثر کیا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے یا جنگ کا، ہمیں بالکل نہیں پتا۔‘‘

دنیا کی غریب ترین قوم ’یمنی‘ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، ریڈ کراس

کیا جرمنی بحران زدہ علاقوں کو ہتھیار فراہم کرتا ہے؟ حقیقت کیا

یمن اس وقت دنیا کے غریب تریم ممالک میں سے ایک ہے۔ سن 2014 میں ایران نواز حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی،  جس میں بعد میں حکومتی مدد کے لیے سعودی قیادت میں عرب اتحاد بھی کود پڑا، یمن میں تباہ کن حالات کا باعث بنی ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں افراد مر چکے ہیں جب کہ لاکھوں بیماریوں اور خوراک کی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ملک کا بنیادی شہری ڈھانچا بھی تباہ ہو گیا ہے۔

اپریل میں تاہم اقوام متحدہ کی قیادت میں طے پانے والے سیز فائر معاہدے کے بعد اس ملک میں کسی حد تک امن لوٹا ہے۔ جنوب مغربی خطے تعز میں سیف نے پہاڑوں کے دامن میں ایک جگہ منتقل ہوئے ہیں۔ جنگ سے قبل سیف کے اہل خانہ کے پاس شہد کی مکھیوں کے تین سو قریب ہائیوز تھے جو اب فقط اسی رہ گئے ہیں۔

ماہرین یمن کے شہد کو دنیا کا سب سے بہترین شہد قرار دیتے ہیں جس میں روئل سدر نمایان ہے، جسے طبی خواص کا حامل سمجھا جاتا ہے۔  اقوام متحدہ کے مطابق شہد یمنی اقتصادیات میں بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہے، جس سے ایک لاکھ گھرانوں کی آمدن وابستہ ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کا تاہم کہنا ہے کہ یمن میں اس صنعت کو جنگ کے بعد سے غیرمعمولی مسائل کا سامنا ہے۔ ''مسلح تنازعے اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس تین ہزار برس پرانے شعبے کو بقا کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔‘‘

سیف کہتے ہیں، ''گزشتہ برس ہمارے گاؤں میں ایک میزائل سیدھا مکھیوں کے مصنوعی چھتوں کے مقام پر گرا۔ اس دیہات کا سب کچھ ختم ہو گیا۔ جنگ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ جنگجوؤں نے ایسے کئی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جہاں شہد کی مکھیاں ہوا کرتی تھیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ متعدد عالمی ادارے اب شہد کی مکھیوں کا کاروبار کرنے والوں کی معاونت کر رہے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ اپنے روزگار کی جانب لوٹ سکیں۔ سن 2021 میں ریڈکراس کی جانب سے اس شعبے میں چار ہزار افراد کی مدد کی گئی۔

ع ت/ رب (اے ایف پی)