1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہائیڈروجن سے توانائی حاصل کرنے کا خواب

ارسلان خالد19 ستمبر 2013

روئل فان ڈی کرول ایک سائنسدان ہیں اور وہ برلن میں معدنیات اور توانائی کے مرکز میں پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19kk6
تصویر: AP

کرول کا خواب ہے کہ وہ ایک ایسا گھر بنائیں جس میں ہائیڈروجن کے ذریعے توانائی تیار کی جائے۔ اس تخیلاتی گھر کی چھت پر سولر سیل لگے ہوں گے جہاں پانی کو خلیوں کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑا جائے گا۔ اس طرح پیدا شدہ گیس کو ایک پائپ کے ذریعے اس گھر کے تہہ خانے میں نصب ایک پریشر ٹینک تک منتقل کیا جائے گا جہاں سے اس ہائیڈروجن سے بذریعہ فیول سیلز بجلی تیار کی جائے گی۔ یہ بجلی اس تخیلاتی گھر کی تمام تر ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔

روئل فان ڈی کرول اس حوالے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جو شمسی توانائی کے ذریعے پانی اور آکسیجن کو توڑ سکتا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی نے پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں توڑنے کا کوئی آلہ بنایا ہے لہذا یہ خیال بھی نیا نہیں ہے تاہم جو مواد اور طریقہ کار اس آلے کو بنانے میں استمعال کیا گیا ہے وہ نیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آلہ پہلے تیار کیے گئے ایسے آلات کی نسبت سستا بھی ہے۔ فان ڈی کرول کا کہنا ہے، ’’یہ پہلی کامیابی ہے‘‘۔ نیا آلہ شمسی توانائی کا صرف پانچ فیصد کیمیائی ہائیڈروجن کی شکل میں ذخیرہ کرتا ہے لیکن اس ایجاد کو مارکیٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس آلے کی شمسی توانائی کو ہائیڈروجن میں تبدیل کرنے کی استعداد 10 فیصد تک ہو۔ فان ڈی کرول کا اس حوالے سے ماننا ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے، ’’آج سے کچھ برس پہلے تک ہماری یہ استعداد صرف ایک فیصد تک تھی اب ہم شمسی توانائی کا پانچ فیصد ہائیڈروجن کی شکل میں ذخیرہ کر نے کے قابل ہو گئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم آئندہ پانچ سے 10 برس میں 10 فیصد بھی ذخیرہ کر سکیں گے۔‘‘

روایتی شمسی سیلز کی شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کی استعداد اس وقت 20 فیصد یا اس سے کچھ زائد ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بجلی کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرنے کی استعداد ابھی تک محدود ہے۔ جرمن وزیر ماحولیات پیٹر آلٹمائر نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ نئی ایجاد ہائیڈروجن کی پیداوار آسان بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ جوہری اور حیاتیاتی ذرائع سے توانائی کے نئے اور متبادل ذرائع پر منتقل ہونا جرمنی کی خواہشات میں شامل ہے۔

90 کی دہائی کے اواخر میں ایک امریکی سائنسدان نے شمسی توانائی سے ہائیڈروجن پیدا کی تھی لیکن اس عمل کے لیے جو نیم موصل مواد استمعال کیا گیا تھا وہ اتنا مہنگا تھا کہ ایک مربع میٹر شمسی سیل پر 50 ہزار ڈالرز لاگت آئی تھی۔

فان ڈی کرول کے مطابق جب وہ اس منصوبے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ایک گھنٹے کی شمسی توانائی سے تین کلو واٹ تک کی توانائی ذخیرہ کی جا سکے گی جو سات گھنٹے تک ایک کمپیوٹر یا ٹیلی وژن اور دیگر ضروری اشیاء چلانے کے لیے کافی ہو گی اور یہ توانائی ماحول دوست بھی ہو گی۔