1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گڈ گورننس کے نعرے سے چمکتی سیاسی دکان

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
30 مارچ 2023

یوں تو شفافیت اور احتساب کے نعرے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت بلند کرتی آئی ہے مگر جب بات عمل کی ہو تو یہی نعرے ان کے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4PVAJ
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے سے، جسے سرکار سے مالی یا کوئی اور مدد مل رہی ہو، کسی بھی طرح کی معلومات مانگ سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت سرکاری ادارہ چودہ دن کے اندر وہ معلومات شہری کو دینے کا پابند ہے۔ دوسری صورت میں شہری چودہ دن بعد اپنے صوبے کے یا وفاق کے کمیشن میں اپیل دائر کرتا ہے اور یوں معلومات تک رسائی کے سفر کو عام شہری کے لیے ممکن بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون اس وقت پاکستان کے دارالحکومت کے علاوہ تین صوبوں،  پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں فعال ہے جبکہ بلوچستان میں اب تک کمیشن ہی قائم نہیں ہو سکا۔

خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت سے 2019 میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے استعمال میں رہنے والے ہیلی کاپٹر کی تفصیلات طلب کیں گئیں۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے ملنے والی معلومات نے عوام میں بے چینی اس لیے پھیلا دی کہ باتوں میں سادگی کا درس دینے والی یہ جماعت خود حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی۔ یہ معلومات دینے کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت کو احساس ہوا کہ معلومات تک رسائی اگر اتنی آسان رہی تو ان کی عیاشیوں کی عمر مختصر ہوتی جائے گی اور پھر اسی اسمبلی نے اس قانون میں ترمیم کر کے اسے اپنی تین تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منظور بھی کر لیا۔ یوں پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ہی سادگی اور گڈ گورننس کے بیانیے کو خیبر پختونخواہ میں ابدی نیند سلا دیا۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن سے عوام لاعلم ہے اسی لیے احتساب اور شفافیت کا یہ منجن آج بھی اسی بھرپور انداز سے بیچا جا رہا ہے۔

بات صرف خیبر پختونخواہ اسمبلی تک محدود نہی رعونت کا یہ رویہ پنجاب اسمبلی کی جانب سے بھی تب دیکھنے کو ملا جب میں نے پنجاب اسمبلی میں اپنے علاقے کے سات ایم پی ایز کی کارکردگی رپورٹ مانگی۔ پنجاب اسمبلی کے پی ای او برہم ہو گئے۔ پہلے تو یہی کہا گیا کہ ہم ایسی معلومات دینے کے پابند نہیں پھر پنجاب کمیشن کی طرف سے سختی پر موقف اختیار کیا کہ تمام تفصیلات پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹس پر موجود ہیں مگر ہم مخصوص انفارمیشن ان دستاویزات میں سے ڈھونڈ کر نہیں نکال سکتے۔ جس کے بعد چیف کمشنر محبوب قادر شاہ نے انہیں پابند کیا کہ تمام معلومات کو ترتیب وار اپلوڈ کیا جائے اور میری مطلوبہ معلومات بھی مجھے دی جائیں۔ سوال بھی یہی ہے کہ جن امیدواروں کو عام شہری ووٹ دے کر اسمبلی بھیجتا ہے تاکہ وہ ہمارے علاقے کی ترقی و فلاح کے لیے کام کریں وہی امیدوار اسمبلی میں بیٹھ کر خود کو قانون سے ماورا کیوں سمجھنے لگ جاتے ہیں؟

اس وقت ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی اسی قانون میں ترمیم کے لیے پی ٹی آئی کے سینٹر ولید اقبال نے ایک ترمیم بل پیش کر رکھا ہے۔ اس بل کو پیش کرنے کی وجوہات میں 2019 میں سینٹ کو بھیجا جانے والا ایک سوالانامہ ہے جس میں  سینٹ کی کل آسامیاں، خالی آسامیوں کی تعداد جیسی بنیادی معلومات مانگی گئی تھیں لیکن سینٹ سیکرٹریٹ کو یہ بات اپنی شان کے خلاف لگی اور یوں اس قانون اور سینٹ سیکرٹریٹ کے درمیان تنازعے نے جنم لیا۔ سینٹ نے یہ معلومات نہ دینے کے لیے تمام سرکاری حربے استعمال کیے، سینٹ سیکرٹریٹ کے ایک عملے نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سینٹ سیکرٹریٹ کا خیال ہے کہ اگر یوں ہم معلومات فراہم کرنے لگ گئے تو ہر شہری پھر ہر معاملے پر سوال اٹھائے گا۔ 

سینٹ سیکرٹریٹ نے اسی سوالنامے کی اپیل میں چیئرمین سینٹ سے ایک خط بھی لکھوایا جس میں چیئرمین سینٹ نے سینٹ کے تمام ریکارڈ کو کلاسیفائیڈ قرار دیتے ہوئے اسے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت فراہمی سے مستثنی قرار دے دیا تھا۔ 

گزشتہ سال مارچ میں سینٹ سے پھر سال 2018 کے بعد سے ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ مانگا گیا۔ حسب روایت اس کا بھی جواب نہیں ملا۔ اس معاملے کو بھی اب سال ہونے کو ہے لیکن سینٹ جواب نہ دینے کے لیے مختلف سرکاری حربے استعمال کررہا ہے مگر ٹائم پاس کرنے کے لیے سینٹ سیکرٹریٹ نے سادے کاغذ پر کچھ معلومات لکھ کر دیں، ان کاغذات پر نہ تو کسی کے سائن ہیں اور نہ سینٹ کا لیٹر پیڈ استعمال ہوا۔ 

اب تک یہ لڑائی صرف سینٹ لڑ رہا تھا لیکن گزشتہ سال جون میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ سابق اسپیکر اسد قیصر نے اپنے سالے کو مبینہ طور پر ڈیپوٹیشن پر نیشنل اسمبلی میں تعینات کرایا اور پھر اسے قوائد کے خلاف ترقی بھی دی تو میں نے نیشنل اسمبلی سے 2018 کے بعد نیشنل اسمبلی میں ڈیپوٹیشن پر ہونے والی تقرریوں اور ان کی ترقی کی تفصیلات طلب کیں۔ نیشنل اسمبلی نے یہ معلومات فراہم نہیں کیں جس پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے نیشنل اسمبلی کے خلاف  فیصلہ جاری کرتے ہوئے معلومات فراہم کرنے کو کہا۔ نیشنل اسمبلی نے بھی خود کو اسی صف میں لا کھڑا کیا جب اس سے ممبران کی جانب سے جمع کرائی گئیں تحریک استحقاق کی تفصیل طلب کی گئی۔ جس کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔

یوں تو تحریک انصاف کی جانب سے سسٹم کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں اور ماضی میں خیبر پختونخواہ میں عمران خان خود اس قانون کی آگاہی اور اس پر عمل درآمد میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے ہیں تو پھر آخر اب ایسا کیا ہوگیا کہ تحریک انصاف کے سینیٹر ہی اس قانون کے پیچھے پڑ گئے۔

اراکین پارلیمان نےکیوں اپنے ہی بنائے ہوئے قانون سے خود کو آزاد کرنے کے لیے معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے؟ اراکین اسمبلی خود کو مقدس گائے ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ قانون باقی سب سرکاری اداروں پر لاگو ہو لیکن ان سے کوئی بھی شہری اس قانون کے تحت کوئی سوال نہ پوچھ سکے۔ 

پاکستان کا آئین عام شہری کو بہت سے حقوق دیتا ہے اور اداروں کو بادشاہت نہیں جواب دہ ہونے کا پابند بناتا ہے۔ پاکستان میں انفارمیشن کمشنز بنانے کی شرط بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی شرائط میں سے ایک شرط تھی مگر اس قانون کو یہ سیاسی رہنما جس طرح اپنے ذاتی مفادات کے لیے ترمیم در ترمیم کر کے بدل رہے ہیں اس طرح ٹرانسپیرنسی کے عمل کو ممکن بنانا ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔