1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ دہائی میں گلوبل وارمنگ میں اضافے سے متعلق نئی تحقیق

9 جون 2023

نئی تحقیق نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے درجہ حرارت ایک 'بے مثال' شرح سے بڑھ رہا ہے۔ جن ممالک نے صفر گرین ہاؤس گیسوں کے منصوبوں کا اعلان کیا، ان میں سے بیشتر اپنے ہدف کے حصول میں پیچھے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4SMXm
Deutschland Klimakonferenz  Bonn |
تصویر: Sascha Schuermann/Getty Images

جرمن شہر بون میں آٹھ جون جمعرات کے روز اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس (سی او پی 28) کے عبوری مذاکرات کے دوران پیش کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران عالمی حدت میں 1.14 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔

اس تحقیق میں متنبہ کیا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے ذریعے بھی گرمی میں 0.2 ڈگری فی دہائی کی ''بے مثال شرح'' سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تحقیق میں سن 2013 اور 2022 کے درمیان کی دہائی کا جائزہ لیا گیا ہے اور اسے 'ارتھ سسٹم سائنس ڈیٹا جریدے' میں شائع کیا گیا ہے۔

ماحولیات سے متعلق کوششوں کا جائزہ لینے اور سن 2015 کی پیرس موسمیاتی کانفرنس کے دوران طے کیے گئے اہداف کا موازنہ اور ان کا جائزہ لینے کے لیے عالمی برادری ہر برس سی پی او کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے۔

جمعرات کے روز پیش کردہ ایک جامع جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر جو ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں ان میں سے بیشتر کے اسے صفر کرنے سے متعلق منصوبوں میں اعتبار کا فقدان ہے۔

امریکہ اور چین مشترکہ طور پر دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا تقریباً ایک تہائی اخراج کرتے ہیں اور وہ بھی ان ممالک میں شامل ہیں، جن کے صفر سے متعلق منصوبوں میں فقدان پایا جاتا ہے۔

 'نیٹ زیرو' منصوبوں کے جائزے میں کس نے کم اسکور کیا؟

تقریباً تمام 35 ممالک جو عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں چار یا پانچ سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں، نیٹ صفر کے منصوبے میں کم اسکور کیا۔

عالمی سطح پر جو سب سے زیادہ کاربن آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں ان میں سے صرف ایک کے پاس قابل اعتبار منصوبہ ہے اور وہ ہے یورپی یونین۔ دوسرے نمبر پر برطانیہ اور نیوزی لینڈ ہیں۔

Deutschland Klimakonferenz  Bonn | Sultan Ahmed Al Jaber
سلطان احمد الجابر نے اس سے قبل اپنے ایک متنازعہ بیان میں فوصل ایندھن کے اخراج میں کمی کی بات کہی تھی نہ کہ خود اس ایندھن میں کمی کر دی جائےتصویر: Sascha Schuermann/Getty Images

بیشتر ممالک سن 2050 تک کاربن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا ہدف بنا رہے ہیں جبکہ چین اور بھارت بالترتیب سن 2060 اور 2070 تک ایسا کرنے کا عہد کر رہے ہیں۔

تاہم جمعرات کے تجزیے میں بتایا گیا کہ بہت سے ممالک جنہوں نے نیٹ صفر کے منصوبے کا اعلان کر رکھا ہے ان کے پاس ایسی بہت سی تفصیلات کی کمی ہے کہ آیا اس میں صرف سی او 2 کی ہی گیسیں شامل ہیں یا پھر دیگر اہم سیارے کو گرم کرنے والی گیسیں جیسے میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ بھی شامل ہیں یا نہیں۔

ابھرتی ہوئی معیشتوں کا کیا حال ہے؟

ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اکثریت سب سے کم درجہ بندی کے ساتھ اس فہرست میں سب سے نیچے تھی۔ اور نچلے ترین ممالک کی فہرست میں برازیل، بھارت، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا شامل ہیں۔

عرب ریاستوں جیسے کہ مصر، جس نے پچھلے سال کی سی او پی اجلاس کی میزبانی تھی جبکہ متحدہ عرب امارات جو اس برس کی میزبانی کرنے والا ہے، نے بھی کافی کم اسکور کیا۔

سی او پی 28 میں فوصل ایندھن کے اخراج میں کمی کا مطالبہ

متحدہ عرب امارات نے فوصل ایندھن کے فیز ڈاؤن پر سخت لہجے میں حملہ کرنے کی کوشش کی۔ سلطان احمد الجابر نے اس سے قبل اپنے ایک متنازعہ بیان میں فوصل ایندھن کے اخراج میں کمی کی بات کہی تھی نہ کہ خود اس ایندھن میں کمی کر دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ''فوصل فیول کی مرحلہ وار کمی ناگزیر ہے۔ جس رفتار سے یہ ہوتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم توانائی کی حفاظت،

 رسائی اور اس کے سستا ہونے کو یقینی بناتے ہوئے، صفر کاربن کے متبادل کو کتنی تیزی سے بڑھا سکتے ہیں۔''

گزشتہ ماہ 100 سے زائد امریکی اراکین کانگریس اور یورپی یونین کی اراکین پارلیمنٹ نے امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی کمشنر ارزلا فان ڈیئر لائن پر زور دیا تھا کہ وہ یو اے ای پر دباؤ ڈالیں کہ وہ انہیں اس عہدے سے برطرف کر دیں۔

ص ز/ ج ا (ے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

گرم موسم سرما، ایپلس خطے میں خوف