1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

کے پی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سیاسی عدم استحکام؟

فریداللہ خان، پشاور
19 دسمبر 2022

صوبائی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کے دعووں کے باوجود عوام کی اکثریت بے یقینی کا شکار ہے۔ افغان سرحد پر حفاظتی باڑ کی تنصیب کے باوجود پاکستانی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری نہیں آسکی۔

https://p.dw.com/p/4LBHD
Pakistan Polizeistation im Nordwesten attackiert Symbolbild
تصویر: Str./AFP/Getty Images

پاکستان  میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکریت پسندوں نے صوبے خیبر پختونخوا میں حملوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ سال رواں کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے اس صوبے کےجنوبی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن میں پولیس اور سرکاری اہلکاروں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے۔ دوسری جانب حکومتی عہدیدار عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ صوبے میں دہشت گردی آخری سانس لے رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں پر بھی الزام لگایا کہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں تاکہ حکومت کو بدنام کیا جاسکے۔

Pakistan Khyber Pakhtunkhwa Provinz Peschawar Polizei
رواں برس کے پی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں خاص طور پر صوبائی پولیس کو نشانہ بنایا گیا تصویر: ABDUL MAJEED/AFP/Getty Images

  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان  حکومت پر زور دیتے رہے کہ وہ حالات کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے سربراہان صوبائی حکومت سے با ر بار امن کے قیام پر توجہ دینے کا  مطالبہ کرتے رہے تاہم خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اس مطالبے کو حزب اختلاف کا واویلا قرار دے کر نظر انداز کرتی رہی۔

 صوبائی اسمبلی کے طویل ترین اجلاسوں میں بھی اپوزیشن نے صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایوان میں اس موضوع پر بحث اور مؤثر پالیسی لانےکے لیے ایک تحریک پیش کی تھی لیکن صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجلاس ملتوی ہوتے رہے۔ اس صورتحال کے بعد اسپیکر نے اس اہم معاملے پر  بحث کروائے بغیر کےپی اسمبلی کا گزشتہ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔

سرحد پار سے در اندازی

 پاکستان اور افغانستان کے مابین چھبیس سوکلومیٹر طویل سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کے باوجود بھی بہت سے دہشت گردانہ حملوں کے لیے  مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

Pakistan Afghanistan Grenze
پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ سرحد پر حفاظتی باڑ نصب کیے جانے کے باجود مبینہ طور پر سرحد پار سے دہسشتگردانہ حملے جاری ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ سرحدی باڑ اور سخت نگرانی کے باوجود یہ عسکریت پسند سرحد پار کرکے ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سمیت دیگر علاقوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے افغان اور قبائلی امور کے ایک  ماہر شمس مومند نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ''افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی توقع تھی کہ پاکستان کے حالات میں بھی بہتری آئے گی کیونکہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے کافی کوشیشں کیں اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں امن لانا اور افغان مہاجرین کو باعزت ان کے وطن واپس بھجوانا تھا لیکن پاکستان کی مبینہ حمایت یافتہ طالبان حکومت کے دور میں افغانستان سے پاکستانی سرحدوں پرحامد کرزئی اوراشرف غنی کی حکومتی ادوار سے بھی زیادہ حملے ہوئے۔‘‘

انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا خیال تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد خطے میں بدامنی میں کمی آئےگی لیکن پاکستان میں گذشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ  ہورہا ہے۔ شمس مومند نےکہا، ''افغان طالبان کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ غیر ملکی فوج افغانستان سے نکل جائے لیکن جب وہ نکل گئے تو بھی پاکستان میں امن کی بجائے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور پاکستان کو طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے پر دنیا میں سبکی کا سامنا  بھی کرنا پڑرہا ہے۔‘‘

صوبائی حکومت اور پولیس کا موقف

حال ہی میں ضلع بنوں اورلکی مروت  سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں پولیس پر حملوں اور  سکیورٹی اہلکاروں کو چوبیس گھنٹوں سے زائد تک وقت تک یرغمال بنائے جانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا، ’’حالات مکمل قابو میں ہیں سکیورٹی فورسزنے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن جاری ہے، جسے جلد مکمل کر لیا جائےگا۔‘‘

اس صوبائی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے مسلح گروپوں سے بات چیت کے زریعے معاملات درست کرنے کی کوشیش بھی کی تھیں تاہم حکومت امن دشمنوں سے نمٹنے کیلئے کوئی کمزوری نہیں دکھائے گی۔ انہوں نے کہا، ''سوات میں بدامنی نے سر اٹھایا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت نے ان کا  ساتھ دیا اور دہشت گردی ختم کی گئی اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی بروقت کاروائی کی جائےگی۔‘‘

کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف
کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف تصویر: Faridullah Khan/DW

خیبر پختونخو کے جنوبی اضلاع بنوں، لکی مروت اور دیگر علاقوں میں پے درپے  ہونے والے دہشت گردی کے واقعات  پر بنوں پولیس کے سربراہ سید اشفاق انور کا کہنا ہے،’’دہشت گردی میں ملوث افراد کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کردیں گے پولیس جان پر کھیل کر دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا، '' دہشت گردی کے خلاف عوام اور پولیس ایک پیج پر ہیں۔‘‘

عوامی رد عمل

تاہم اس ساری صورتحال میں براہ راست متاثر ہونے والے عام شہری حکومتی دعووں سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتے۔ اسی لیے وہ اپنی مدد آپ کے تحت  دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے رہے۔ جنوبی وزیر ستان کی تحصیل وانا کے عمائدین نے امن کے قیام کے سلسلے میں منعقدہ ایک قبائلی جرگے کے دوران جنوری کے پہلے ہفتے میں احتجاجی مارچ کا اعلان کیا۔

  ان قبائلی عمائدین کہنا ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے سکیورٹی کے اقدامات موثر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے  علاقے کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔  قبل ازیں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات ، دیر ، بونیر اور شانگلا میں ہزاروں افراد  نے امن  مارچ کیے اور حکومت پر زور دیا کے وہ دہشت گردوں کی ان علاقوں میں واپسی کو روکے۔ اس عوامی دباؤ کے نتیجے میں مقامی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے حرکت میں آئے اور یہاں بدامنی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں ائی ۔