1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پنجاب میں زرداری کی کوششوں سے ’معجزہ‘ رونما ہو سکتا ہے؟

20 دسمبر 2022

پاکستانی سیاسی حلقے اس وقت پنجاب کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں، جہاں اسمبلی تحلیل کیے جانے سے پہلے جنم لینے والا بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ پنجاب کی سیاست کے حوالے سے آئندہ چوبیس گھنٹوں کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4LEtu
Indien Wahllokal Lahore
تصویر: Tanvir Shazad/DW

اصل بحران کیا ہے؟

تفصیلات کے مطابق ایک طرف پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا کر اکیس دسمبر کی شام کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دے رکھا ہے تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس (جو پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے) ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور قانون کے مطابق اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔

اس صورتحال میں پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کا یہ موقف آئین اور قانون کے منافی ہے اور اگر بدھ کی شام تک چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو پھر وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور ان کا آفس سیل بھی ہو سکتا ہے۔

کیا پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گی؟

مسلم لیگ نون کے حلقوں کا کہنا ہے کہ جب پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ ہی نہیں رہیں گے تو پھر وہ اسمبلیاں کیسے تحلیل کر سکتے ہیں؟ ان کے بقول قانون کے مطابق، جب گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ دے تو پھر بھی اعتماد کا ووٹ لینے تک وزیر اعلیٰ کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار معطل رہتا ہے۔

 اس صورتحال میں آصف علی زرداری کے سیاسی رابطے کوئی بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں
اس صورتحال میں آصف علی زرداری کے سیاسی رابطے کوئی بڑا سرپرائز دے سکتے ہیںتصویر: B.K. Bangash/dpa/AP/picture alliance

اگرچہ پنجاب میں حکومت اور حزب اختلاف اپنے اپنے موقف کے درست ہونے اور اپنی اپنی پوزیشن بہتر ہونے کے دعویدار ہیں لیکن کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ اب اتنا بھی سادہ نہیں رہا اور اس صورتحال میں لگتا یوں ہے کہ معاملات عدالت کی طرف جائیں گے اور وہاں ہی فیصلہ ہو پائے گا۔  

نمبر گیم کیا بتا رہی ہے؟

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ رہنے کے لیے پنجاب اسمبلی کے تین سو اکہتر ارکان کے ایوان میں سے کل ایک سو چھیاسی ارکان کی حمایت درکار ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد کے پاس ایک سو نوے ووٹ ہیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک سو اسی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے دس ووٹ شامل ہیں۔

دوسری طرف پی ڈی ایم کے پاس ایک سو اسی ارکان ہیں، جن میں مسلم لیگ نون کے ایک سو سڑسٹھ، پیپلز پارٹی کے سات، راہ حق کے ایک رکن کے ساتھ ساتھ ان میں پانچ آزاد ارکان بھی شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے دو ارکان باغی بتائے جاتے ہیں، جن کے حکمران اتحاد کے حق میں ووٹ غیر یقینی بتائے جا رہے ہیں۔

کیا پنجابی بیرونی حملہ آوروں کا خیر مقدم کرتے رہے؟

منگل کے روز ہونے والی ایک اہم پیش رفت میں لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون کے ان اٹھارہ معطل ارکان پنجاب اسمبلی کو  بھی اجلاس میں شرکت کرنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی ہے، جن کو پاکستان تحریک انصاف کے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے پندرہ نشستوں کے لیے اسمبلی اجلاس شرکت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

لاہور میں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے مرکزی رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود ہے اور اس صورتحال میں ہونے والے سیاسی رابطوں میں تیزی آ گئی ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے چوہدری شجاعت حسین اور شہباز شریف سمیت سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کو سیاسی حلقے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔

 چوہدری پرویز الہٰی کہتے ہیں کہ حکومتی صفوں میں موجود ننانوے فی صد ارکان پنجاب اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے جبکہ پی ٹی آئی کے بعض ارکان اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے طرز عمل کو احسان فراموشی قرار دے رہے ہیں۔ بد اعتمادی کی اس فضا میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ مل سکے گا، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

زرداری کی کوششوں سے 'معجزہ‘ رونما ہو سکتا ہے؟

سینئر تجزیہ کار جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں آصف علی زرداری کے سیاسی رابطے کوئی بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ ان کے بقول اس وقت ایک ایسی تجویز پر بھی کام ہو رہا ہے، جس کے ذریعے پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہو سکے لیکن حکومت بدل جائے۔ ان کے بقول اس صورت میں صدر زرداری کے حمایت یافتہ پرویز الہٰی ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے لیکن کابینہ میں اکثریت نون لیگ اور اتحادی جماعتوں کی ہو گی ۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ ایک ایسا آپشن ہے، جس پر پی ڈی ایم متفق ہو سکتی ہے، اس سے اسٹیبلشمنٹ بھی مطمئن ہو گی، جاری بحران کا خاتمہ ہو گا اور ملک کو استحکام مل سکتا ہے۔‘‘

 بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق چوہدری شجاعت حسین نے آصف علی زرداری کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر ق لیگ پی ڈی ایم سے مل گئی تو پنجاب میں اقتدار کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ 

جاوید فاروقی کی رائے میں پنجاب اسمبلی اگر تحلیل ہونے سے بچ گئی تو پھر عمران خان کے لیے کے پی اسمبلی تحلیل کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔