1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں ’نئے عام انتخابات‘ کی سکت ہے؟

12 مارچ 2023

عمران خان پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم عام انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا عمل ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان جو اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، عام انتخابات کے انعقاد پر سرمایہ خرچ کر بھی سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4OOBK
Kundgebung in Pakistan
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی سمجھتے ہیں کہ ملک کو موجودہ سیاسی اوراقتصادی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ عام انتخابات ہیں۔ ان کے مطابق کسی سیاسی جماعت یا اتحاد کو ملنے والی تازہ عوامی تائید و حمایت ملک کے مفاد میں ہو گی۔ تاہم عام انتخابات کا مطالبہ کرنا آسان ہے اور ان کا انعقاد مشکل۔

پاکستانی پولیس کی سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش

عدلیہ کا فیصلہ، جیت انصاف یا پھر تحریک انصاف کی؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی مشکلات کی شکار پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کی حکومت عمران خان کے اس مطالبے کو قبول کرنے میں جھجھک رہی ہے۔ اسے خوف ہے کہ ایسی صورت میں سابق وزیر اعظم عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔

عمران خان گزشتہ برس اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کر دیے گئے تھے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ اور امریکہ پر عائد کرتے ہیں۔

سابق کرکٹر اور تحریک انصاف کے سربراہ حالیہ کچھ عرصے میں عوامی جائزوں میں مقبولیت کے حوالے سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے جب کہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض کے حصول میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اقتصادی بحران، مہنگائی اور گیس اور بجلی کی شدید قلت نے شہباز شریف حکومت کو عوام میں خاصا غیرمقبول بنا دیا ہے۔

پاکستان کا اقتصادی بحران

پاکستان میں ایندھن اور دیگر اشیائےضرورت کی قلت اور ساتھ ہی تاریخی حد تک زیادہ مہنگائینے اشیائے خور و نوش کو عام افراد کی رسائی سے دور کر دیا ہے۔ کراچی سمیت کئی اہم شہروں میں پٹرول پمپوں پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، جب کہ کئی گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں ہے۔ ادھر کارخانے بھی ایندھن اور بجلی کی قلت کی وجہ سے اپنا کاروبار جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

چھبیس جنوری کو پاکستانی روپے کی قیمت نو اعشاریہ چھ فیصد گری۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک روز میں روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ اتنا شدید ہے کہ کئی غیرملکی کنٹینرز کئی کئی ہفتوں سے بندرگاہوں پر موجودد ہیں، جب کہ حکومت کے پاس سرمایہ نہیں کہ اسے ادا کر کے وہ سامان وصول کیا جائے۔ ایسے میں شریف حکومت ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے قرض کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی فنڈسے ملنے والی انتہائی مشکل شرائط کا سامنا کر رہی ہے۔

انتخابات ایک مہنگا عمل

کیا نئے انتخابات پاکستان کو ان مشکلات سے نکال سکتے ہیں؟ تحقیقاتی صحافی اور سیاسی مبصر ضیا رحمان کے مطابق ملک کا اقتصادی بحران بہت بڑا ہے اور ریاست کے پاس سرمایے کی شدید قلت۔ ''نئے انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا عمل ہے اور فی الحال میری نگاہ میں پاکستان میں اس خرچ کی سکت نہیں۔‘‘

رحمان کے مطابق، ''مثالی راستہ فقط یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور اعلیٰ فوجی قیادت مل کر بیٹھیں اور ایک قومی حکومت قائم کی جائے، جس کی اہم ترین ترجیح ملکی معیشت کی بحالی ہو۔‘‘

تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس سلسلے میں کسی قومی بحث میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان ہیں۔ سینیئر صحافی غازی صلاح الدین کے مطابق، ''عمران خان سیاست کو کھیل کی طرح دیکھتے ہیں۔ کھیل میں کھلاڑی کا واحد مقصد مخالف کو کسی بھی قیمت پر شکست دینا ہوتا ہے۔ سیاست لیکن یوں کام نہیں کرتی۔ سیاست دانوں کو ہر کسی سے مل بیٹھنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی۔‘‘

عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے اہم اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک کی بنیاد پر کسی بھی قومی بات چیت کی جگہ نہیں نکلتی۔ حالیہ کچھ عرصے میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے جب کہ عمران خان بھی کرپشن کے متعدد الزامات کے تحت ممکنہ گرفتاری کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا تاہم کہنا ہے کہ حکومت عام انتخابات میں تاخیر کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے، تاہم دن گنے جا چکے ہیں۔

سکیورٹی مسائل

پاکستان کو اس وقت فقط معاشی مسائل ہی درپیش نہیں بلکہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک اوراہم مسئلہ سکیورٹی صورتحالکا بھی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ عرصے میں اپنے پرتشدد حملوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ فروری میں طالبان کے ایک خودکش اسکواڈ نے کراچی میں ایک پولیس عمارت کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ جنوری میں پشاور میں ایک ایسی مسجد بم حملے کا نشانہ بنی جہاں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد نماز ادا کرتی تھی۔ اس واقعے میں اسی سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

سیاسی تجزیہ کار ضیا رحمان کے مطابق، ''پاکستان کے پاس ان سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی سرمایہ موجود نہیں ہے۔ اس سے ملک کی سلامتی اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘‘

پاکستان کی طاقت ور فوج کے لیے بھی موجود صورت حال ہموار نہیں۔ اس وقت فوج کو عمران خان اور ان کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں مبصرین کے مطابق نئے انتخابات سیاسی محاذآرائی کے خاتمے کا سبب نہیں ہوں گے اور ان سے پاکستان کی اقتصادی اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری کی بجائے ابتری پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔

شامل شمس، (ع ت، م م )