1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی طرف جا رہا ہے؟

18 فروری 2023

کراچی سےخیبر تک لوگ متفکر ہیں کہ کیا ملک میں سکیورٹی کی صورتحال ایک بار پھر بدتر ہونے جارہی ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑی ملکی معیشت کیسے اسے سہارا دے گی؟

https://p.dw.com/p/4NgXz
Pakistan Bombenanschlag
تصویر: Hussain Ali/Pacific Press Agency/IMAGO

پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دارالحکومت اسلام آباد اور پشاور کے بعد ملک کے معاشی حب کراچی میں  دہشت گردوں کے حملے سے کئی سوال جنم لے رہے ہیں۔

ممتاز دفاعی تجزیہ کار  ڈاکٹر ہما بقائی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر پر 17 فروری کو ہونے والا حملہ کوئی عام سی بات نہیں ہے، یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے شروع ہونے والے واقعات اب پشاور پولیس لائن کے بعد کراچی پولیس چیف کے دفتر تک پہنچ گئے ہیں۔

کیا ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے؟

ڈکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پولیس کو نشانہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہوگئی ہے: ''صورتحال نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ ہمارا ملک اب حالت جنگ میں ہے، اس جنگ کی مختلف شکلیں ہیں، کچھ لوگ اسے ففتھ جنریشن وار کہتے ہیں، یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ صرف شہر ہی نہیں ہمارے ساحلی علاقے بھی خطرات سے دو چار ہیں اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور افغانستان سے تعلقات کی نوعیت دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ کوئی بڑا کھیل کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

ہما بقائی کے بقول ملک خطرے میں ہے اور حکمران آپس کے اختلافات اور لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔

Pakistan Karatschi | Islamisten stürmen Polizeistation
کراچی میں جمعہ کی شب شہر کی سب سے مصروف سڑک شارع فیصل پر واقع سٹی پولیس چیف کے دفتر پر جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔تصویر: ASIF HASSAN/AFP

فرانسسی خبر رساں ادارے کے لیے کام کرنے والے سینئر صحافی اشرف خان نے ڈوئچے ویلےسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پولیس پر حملہ پہلا واقعہ نہیں ہے: ''اس سے قبل بھی اس نوعیت کے کئی واقعات رہنما ہوچکے ہیں۔ جن میں مہران بیس حملہ، کراچی ائیرپورٹ حملہ، پاکستان اسٹاک ایکس چینج حملہ، پشاور پولیس لائن حملہ، لاہور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ، چینی سفارتخانے پر حملے اور چینی باشندوں کو نشانہ بنانے سمیت دیگر واقعات شامل ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ان پہ در پہ واقعات کی تحقیقات میں کوئی خاص پیش رفت  بد قسمتی سے منظر عام پر نہیں لائی گئی اور 17 فروری کو کراچی پولیس چیف کے دفتر پر ہونے والا  حملہ ناقص سیکیورٹی کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے: ''تشیویشناک بات یہ ہے کہ شہر میں پی ایس ایل کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے، اور جس مقام پر یہ حملہ ہوا ہے اس سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر  نا صرف بری فوج کا کور ہیڈ کوارٹر موجود ہے بلکہ آئی آیس آئی کراچی کا مرکزی دفتر، آرمی بھرتی سینٹر اور نیول ہیڈکوارٹر  سمیت کئی اہم دفاتر موجود ہیں۔ اتنی بھاری تعداد میں اسلحہ بردار افراد کا اس مقام تک پہنچنا حیران کن بات ہے۔‘‘

کیا کراچی میں ایک پھر طالبان مضبوط ہوگئے ہیں؟

اشرف خان کا مزید کہنا تھا کہ اس نوعیت کے حملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ جگہیں دہشت گردوں کی دسترس میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ پولیس افسران اور حساس ادارے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں تحریک طالبان پاکستان اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کرچکی ہے۔

حال ہی میں پولیس کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے امتیاز بانڈے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ اور دہشت گردوں کا آسانی سے اندر داخل ہو جانا پولیس کے اعلٰی افسران کی  غفلت کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور پولیس لائن کی مسجد پر حملے کے بعد بھی انہیں سمجھ نہیں آئی اور کوئی مناسب سکیورٹی انتظامات نہیں کیے گئے: ''یہ تو پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا فوری رسپانس تھا کہ جس کی وجہ سے کسی بہت بڑے سانحے سے محفوظ رہے ورنہ جس تیاری سے دہشت گرد آئے تھے اگر اس میں کامیاب رہتے تو بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا۔‘‘

سکیورٹی پر مامور افراد کتنے تربیت یافتہ تھے؟

پولیس کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے امتیاز بانڈے کے مطابق کراچی پولیس آفس کے فرنٹ گیٹ کی چوکی پر بمشکل چار اور بائیں ہاتھ والی چوکی پر دو سکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ جو پولیس کے سکیورٹی ون یونٹ سے متعین کیے گئے تھے: ''یہ وہ یونٹ ہے جہاں عموماﹰ پولیس اہلکاروں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہے اورجو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی صورت میں مناسب جواب دینے کی تربیت نہیں رکھتے۔ ان کی فزیکل فٹنس بھی ایس ایس یو کمانڈوز جیسی نہیں ہے۔

Pakistan Bombenanschlag
پشاور پولیس لائن کی مسجد پر حملے کے نتیجے میں 92 افراد مارے گئے تھے۔تصویر: Hussain Ali/Pacific Press Agency/IMAGO

صوبے کے ذمہ داران اداروں کی کارکردگی سے مطمئین

کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کے بعد صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی سندھ نے اپنے اپنے بیانات میں پولیس سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس سمیت دیگر اداروں نے بروقت کارروائی کرکے بڑے نقصان سے شہر کو بچا لیا ہے۔ 

ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کے بعد انتخابات میں التوا کی بات بھی ان دنوں زیر بحث ہے۔ فوج سمیت دیگر اداروں نے انتخابات میں سکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت کی ہے۔ بدحال معیشت اور غیر مستحکم سیاسی صورت حال کا شکار پاکستان بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث مہنگائی کا نیا طوفان سر اٹھا چکا ہے۔ دہشت گردی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے، بلوچستان پہلے ہی مسلسل دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہا ہے اور سوات سے شروع ہونے والی دہشت گردی پشاور کے بعد کراچی تک پہنچ چکی ہے۔

تجزیہ کاروں کی آرا میں ایسی صورت حال میں رواں برس اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو یہی حکومت جاری رہے گی تو عمران خان کا احتجاج مزید شدید ہوجائے گا اور اگر عبوری حکومت قائم ہوتی ہے تو پھر 90 دن میں انتخابات منعقد کرانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر

واضح رہے کہ کراچی میں جمعہ کی شب شہر کی سب سے مصروف سڑک شارع فیصل پر واقع سٹی پولیس چیف کے دفتر پر جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ فائرنگ کے تبادلے میں پولیس  کے دو اہلکار، ایک رینجرز اہلکار اور ایک نائب قاصد سمیت چار افراد جاں مارے گئے۔ ڈھائی گھنٹے جاری رہنے والی لڑائی میں سینئر فوجی افسر سمیت 19 افراد زخمی بھی ہوئے۔