1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

کیا شیخ حسینہ آمریت کی جانب گامزن ہیں؟

4 جنوری 2024

آئندہ اتوار کو بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی جیت کے لیے تمام تر حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ناقدین ان کے اس سیاسی رویے کو جمہوریت مخالف اور استبدادی قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ar1L
Bangladesch, Dhaka | Studenten der Bangladesh Chhatra League vor den Wahlen
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

173 ملین سے زیادہ کی آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیائی ریاست بنگلہ دیش میں سات جنوری 2024 ء کو عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ اس ملک کی موجودہ وزیر اعظم کو کبھی جمہوریت کی جدوجہد کرنے والی ایک مضبوط سیاسی لیڈر مانا جاتا تھا۔ لیکن اب ان کی جمہوریت پسندی پر سوال اُٹھ رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ جس انداز سے شیخ حسینہ نے اقتدار کو اپنے پاس رکھنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کیے ہیں، وہ کہیں سے بھی جمہوری نہیں بلکہ آمریت یا مطلق العنانی ہے۔

شیخ حسینہ کے سیاسی رویے میں تبدیلی کی وجوہات

بنگلہ دیش  کی تاریخ اور اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی نے ان کے سیاسی رویے میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ پندرہ سال کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے سبب اب وہ آمرانہ طرز حکومت کی طرف چل پڑی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار کے انتخابات میں  شیخ حسینہکی جیت اقتدار پر ان کی گرفت کو مزید مضبوط کر دے گی۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مسئلہ

گزشتہ برس نومبر میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے آئندہ انتخابات سے قبل موجودہ حکومت اپوزیشن کے خلاف، جس طرح کا کریک ڈاؤن کر رہی ہے، اُس کے بعد قابل بھروسہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آ رہا۔

BG Proteste der politischen Parteien Bangladeschs
اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاںتصویر: FARJANA K. GODHULY/AFP/Getty Images

 انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس گروپ نے کہا تھا کہ جیلیں اب اپنی گنجائش سے زیادہ قیدیوں سے بھر چُکی ہیں۔ حالیہ کریک ڈاؤن میں تقریباً 10,000 کارکنوں کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے کی تمام تر کوششیں کر رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا،''بنگلہ دیش کے حکام اپوزیشن کو کچلنے اور عام انتخابات سے قبل مقابلے کو ختم کرنے کی واضح کوشش میں سیاسی اپوزیشن کے اراکین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لا رہے ہیں۔‘‘

اپوزیشن پارٹی کا بائیکاٹ

شیخ حسینہ کی اصل حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہے، جس نے الیکشن کے بائیکاٹ  کا اعلان کیا ہے۔ بی این پی کا دعویٰ ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت منصفانہ ووٹنگ کو یقینی نہیں بنا سکتی اور اس سے یہ امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ 76 سالہ وزیر اعظم صرف اپنی طاقت اور اقتدار کو محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں مدت کے لیے بھی محفوظ کر لیں گی۔

 

Bangladesh Protest
اپوزیشن کے خلاف پُر تشدد کریک ڈاؤنتصویر: AFP/Getty Images

شیخ حسینہ کے حامی کیا کہتے ہیں؟

ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حسینہ بنگلہ دیشکی سب سے طویل عرصے تک رہنے والی سیاسی رہنما ہیں اور ان کی عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کو ایک بڑھتی ہوئی صنعت اور تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن  ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ استحکام بخشا ہے۔ شیخ حسینہ کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہی استحکام بنگلہ دیش کو فوجی بغاوتوں سے محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ اس طرح بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے مستقبل کو آمریت اور فوجی بغاوتوں کے منفی اثرات سے بچایا جا سکا ہے۔

بنگلہ دیش کا انسداد دہشت گردی کا ایک یونٹ ہی ’دہشت گردی میں ملوث‘

یاد رہے کہ  بنگلہ دیش بنیادی طور پر ایک ایسی مسلم ریاست ہے، جو تزویراتی طور پر بھارت اور میانمار کے درمیان واقع ہے۔ لیکن حسینہ کی سیاسی زندگی، اپنے ملک کی طرح، تشدد سے شروع ہوئی تھی۔

15 اگست 1975 ء کو فوجی افسروں کے ایک گروپ نے بغاوت کی اور شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب رحمان کو قتل کر دیا، جو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پہلے ملکی رہنما تھے۔

ک م/ اا(اے پی، اے ایف پی)