1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تحریک انصاف کو کالعدم کر دیا جائے گا؟

24 مئی 2023

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج کے طاقتور ادارے کو چیلنج کرنے والوں کو اس کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں بھی بعض سیاسی جماعتوں کو پابندیوں کا سامنا رہا لیکن یہ پابندیاں مستقل ثابت نہیں ہو سکیں۔

https://p.dw.com/p/4RkIL
Pakistan | Gerichtsprozess ehemaliger Premierminister Imran Khan
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تحلیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ممکنہ طور پر ملک کو ایک گہرے سیاسی بحران میں دھکیل دے گی۔

نو مئی کو عمران خان ​​ کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاج کے دوران پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں اب تک پی ٹی آئی کے ساڑھے سات ہزار سے زائد اراکین اور حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق اس کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے بعد بھی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

فوجی قیادت عمران خان سے ناراض

پاکستانی حکام نے متنبہ کیا کہ پرتشدد مظاہروں میں ملوث مشتبہ افراد کو ملک کی متنازعہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ عدالتیں عام طور پر ریاست کے دشمنوں کے لیے مخصوص ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نےعام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد ارکان پارلیمنٹ، سابق وزراء اور عہدیداران پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان نے زور دے کر کہا کہ ان لوگوں پر پارٹی سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

عمران خان گزشتہ سال اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے ملکی فوج پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز پر عمران خان نے فوج پر انہیں اغوا کرنے کا الزام بھی لگایا - یہ ایک ایسا دعویٰ تھا، جس نے فوج کو مشتعل کیا اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اسے مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا۔

پی ٹی آئی پر دباؤ

کراچی میں مقیم  ایک تجزیہ کار توصیف احمد خان نے نشاندہی کی کہ جو بھی پاکستانی فوج کو چیلنج کرتا ہے، اسے ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور ان پر دوبارہ انتخاب لڑنے پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ''اس طرح کے دباؤ سے پارٹی متاثر ہو گی۔ مزید لیڈروں کو خان ​​سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہذا، ایک طرح سے پارٹی کوختم کر دیا جائے گا۔‘‘

پاکستان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار

اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی اور سیاسی مبصر عاصمہ شیرازی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ خان کی پارٹی شاید دباؤ سے بچ نہیں پائے گی۔

 امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور واشنگٹن میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک اسکالر حسین حقانی بھی عاصمہ شیرازی کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "خان کی پارٹی اس کے بعد اس سے کہیں زیادہ چھوٹی پارٹی کے طور پر ابھرے گی جتنا کہ اس وقت لگتا ہے۔"

کیا پابندی سے خان کی مقبولیت میں کمی آئے گی؟

لیکن فی الحال سابق وزیر اعظم پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر تعلیم نور فاطمہ کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی پر پابندی سے ان کے حریفوں کو خان ​​سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ایک 'دانشمندانہ فیصلہ‘ نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی کثرتیت جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر اس کثرتیت کو ختم کرتی ہے تو اس سے حکمران جماعتوں کی جمہوری ساکھ کو نقصان پہنچے گا، جس سے ان کے ووٹ بینک متاثر ہوں گے، نہ کہ خان کے"

صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن سعدیہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو کالعدم قراردیا گیا تو یہ ایک نظیر کے طور پر کام کر سکتا ہے، "ہم پی ٹی آئی کے طرز سیاست کو پسند نہیں کرتے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی سخت مخالفت کریں گے۔ ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے تباہی پھیلانا،"

توصیف احمد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ایک سیاسی جماعت پر پابندی سے فوج کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔ ان کے بقول "اس سے یہ تاثر پیدا ہو گا کہ جمہوری جماعتیں سیاسی بحرانوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔" انہوں نے مشورہ دیا کہ سیاستدانوں کو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے عمل کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔"

عمران خان کی گرفتاری پر ملک گیر مظاہرے، ہلاکتوں کی اطلاعات

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

اگر  پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ پاکستان کی فوج کی ناراضگی کے بعد کالعدم قرار دی جانے والی پہلی جماعت نہیں ہوگی۔ 1960ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ 1970 کی دہائی کے دوران بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں متعدد فرقہ وارانہ اور مذہبی تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس فوجی آمر نے 1999ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تقریباً نو سال تک ملک پر حکومت کی۔

کراچی میں  متحدہ قومی موومنٹ کو ماضی میں بھی اسی طرح غیر سرکاری پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سن 1977 سے 1988 تک جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دوران پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایس خان، اسلام آباد ( ش ر ⁄ ع ا)