1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایلون مسک کی تیار کردہ کمپیوٹر چپ انسانی دماغ پڑھ سکتی ہے؟

7 اپریل 2023

ایلون مسک دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ دماغ کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے۔ امریکی ارب پتی کی خواہش ہے کہ ان کی تیار کردہ نئی ٹیکنالوجی لوگوں کو ’’سپر ویژن‘‘ فراہم کرے۔

https://p.dw.com/p/4Poxl
Neuralink Illustration
تصویر: Jonathan Raa/NurPhoto/picture alliance

ایلون مسک نے سن 2020ء میں اپنی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کے تیار کردہ دماغی امپلانٹس کے ممکنہ استعمال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''مستقبل عجیب ہونے والا ہے۔‘‘ پچھلے سات سالوں سے یہ کمپنی ایک کمپیوٹر چپ تیار کر رہی ہے، جسے دماغ میں لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جہاں یہ ہزاروں نیوران کی سرگرمی پر نظر رکھتی ہے۔

ایلون مسک دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ اس کی کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے
تصویر: Jean-Christophe Bott/dpa/picture alliance

یہ چپ، جسے باضابطہ طور پر ایک ''برین کمپیوٹر انٹرفیس‘‘ (بی سی آئی) سمجھا جاتا ہے، ایک چھوٹی سی پروب پر مشتمل ہے جس میں تین ہزار سے زیادہ الیکٹروڈ ہیں، جو انسانی بالوں سے بھی پتلے اور لچکدار تاروں سے منسلک ہوتے ہیں۔

ایلون مسک دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ دماغ کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے، جیسا کہ انیس سو ننانوے میں تیار کی گئی سائنس فکشن فلم ''دی میٹرکس‘‘ میں دکھایا گیا ہے۔

مسک نے نابینا پن اور فالج جیسے امراض کے علاج کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ انسانی ٹیلی پیتھی کے حصول کے لیے نیورالنک کو استعمال کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے، جو ان کے بقول مصنوعی ذہانت کے خلاف جنگ میں انسانیت کو غالب آنے میں مدد دےگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی لوگوں کو ''سپر ویژن‘‘ فراہم کرے۔

مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی: ’چین امریکا پر برتری رکھتا ہے‘

سائنس فکشن یا حقیقت؟

کیا اس میں سے کچھ بھی ممکن ہے؟ مختصر جواب: نہیں۔

ہم لوگوں کے ذہنوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے نیورل انجینئر جیاکومو ویلے نے کہا کہ ہم دماغ سے جو معلومات ڈی کوڈ کر سکتے ہیں وہ بہت محدود ہے۔

امپیریل کالج لندن میں بی سی آئی کے ایک محقق خوآن الوارو گائیےگو نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس زندگی میں ہمارے ذہنوں کو پڑھنے والے بی سی آئی کا تصور کرنا مشکل ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم واقعی یہ نہیں جانتے کہ دماغ میں خیالات کہاں اور کیسے محفوظ ہوتے ہیں۔ گائیےگو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہم خیالات کو نہیں پڑھ سکتے اگر ہم ان کے پیچھے موجود نیورو سائنس کو نہیں سمجھتے۔

Screenshot Youtube Affe mit Mikrochip
نیورالنک چپ ایمپلانٹ کیے ہوا ایک بندر پانگ گیم کھیلتے ہوئےتصویر: Youtube.com/Neuralink

بی سی آئی کا حقیقت سے جڑا کلینیکل استعمال

مسک نے سب سے پہلے سن 2019ء میں نیورالنک ٹیکنالوجی کی نمائش کرتے ہوئے ایک سؤر کو متعارف کرایا، جس کے دماغ میں نیورالنک چپ لگائی گئی تھی اور ایک بندر کی ویڈیو جو اپنے دماغ سے پونگ پیڈل کو کنٹرول کر رہا تھا۔

لیکن بی سی آئی کی صلاحیت کھیل کھیلنے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہے۔

 گائیےگوکے مطابق یہ ٹیکنالوجی سب سے پہلے ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں یا لاکڈ اِن سنڈروم، جیسے حالات سے مفلوج لوگوں کی مدد کے لیے تیار کی گئی تھی۔ لاکڈ اِن سنڈروم  ایک ایسی کیفیت ہے، جس میں ایک مریض مکمل طور پر ہوش میں ہونے کے باوجود آنکھوں کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا۔

 گائیےگوکے کا ماننا ہے، ’’اگر آپ ان (مریضوں)کے اندرونی مواصلات کو کمپیوٹر پر الفاظ میں ترجمہ کر سکتے ہیں تو یہ زندگی بدل دے گا۔‘‘اس قسم کے معاملات میں بی سی آئی کو موٹر کارٹیکس میں نیوران سے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، پھر سگنلز کو کمپیوٹر پر بھیجیں، جہاں وہ متن کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ موٹر کارٹیکس دماغ کا وہ حصہ ہے، جو جسمانی حرکات کو کنٹرول کرنے کے لیے سگنل جاری کرتا ہے۔‘‘

 عام طور پر خیال کی جاتا ہے کہ موٹر کارٹیکس کا سوچنے کے عمل سے تعلق نہیں۔ اس کے بجائے یہ جسم کو  حرکت کرنے کی ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ بولنے کے لیے زبان اور جبڑے کے پٹھوں کی حرکت۔ گائیےگو کے مطابق، '’سائنس دانوں نے یہ بھی دکھایا کہ وہ موٹر کارٹیکس کی طرف سے ایک لفظ لکھنے کے ارادے کو پڑھ سکتے ہیں۔ پیچیدہ ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے (مربوط کمپیوٹر کے ساتھ)، اس  کے ذریعے مفلوج شرکاء نے دس الفاظ فی منٹ ٹائپ کیے، جو کہ ایک پیش رفت تھی۔‘‘

محسوس کرنے کی صلاحیت کی بحالی

اس ضمن میں اہم  پیش رفت سن 2016ء میں ہوئی، جب اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے ناتھن کوپ لینڈ کے روبوٹک ہاتھ سے مصافحہ کیا۔کوپ لینڈ ایک کار حادثے میں زخمی ہونےکے بعد مفلوج ہوچکےتھے۔ تاہم انہوں نے اوباما کے مصافحہ کو ایسا محسوس کیا، جیسے وہ جلد سے جلد کو چھو رہے ہوں۔

یہ برین کمپیوٹر انٹرفیس کی ایک مختلف صلاحیت کا مظاہرہ تھا۔  گائیےگوکے نے کہا کہ اس کیس میں دماغ سے ریکارڈ کرنے اور مطلوبہ حرکات کی تشریح کرنے کے لیے الیکٹروڈز کا استعمال کرنے کے بجائے، دماغ کو چھوٹے چھوٹے دھاروں سے متحرک کیا گیا تھا تاکہ احساس پیدا ہو۔

Flash - Galerie Pierpaolo Petruzziello wurde ein Roboterarm transplantiert
روبوٹک ہاتھ مختلف حادثات میں مفلوج ہو جانے والے افراد کی بحالی میں مدد کر رہے ہیںتصویر: AP

بی سی آئی کی یہ نئی صلاحیتیں دماغ کے گہرے محرک کی اگلی نسل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا علاج ہے جس میں دماغ کے علاقوں میں الیکٹروڈ لگانا شامل ہے تاکہ  جسمانی حرکت کی خرابی میں مبتلا لوگوں کی مدد کی جا سکے۔

گائیےگوکے نے کہا، ''یہ ٹیکنالوجیز کچھ عرصے سے موجود ہیں۔ نوے کی دہائی سے پارکنسنز کے مرض میں مبتلا لاکھوں لوگوں کی مدد کے لیے گہری دماغی تحریک کا استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

سب کے لیے دماغ کی جراحی؟

بی سی آئی  کا استعمال ابھی تک صرف کوپ لینڈ جیسے خصوصی کیسز میں کیا جا رہا ہے اورنیورا لنک کی ٹیکنالوجی کا تجربہ صرف جانوروں پر کیا گیا ہے۔ بی سی آئی کی تمام کلینیکل ایپلی کیشنز ابھی تک تحقیق کے مرحلے میں ہیں اور ابھی تک کلینیکل پریکٹس میں لاگو نہیں ہوئی ہیں۔

نیورا لنک نے گزشتہ سال امریکی وفاقی ڈرگ ریگولیٹرز سے اپنی ٹیکنالوجی کی انسانوں پر آزمائشوں کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے اس وقت دھچکہ لگا جب حکام نے بڑے حفاظتی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی درخواست  مسترد کر دی۔ مسک کی کمپنی مبینہ طور پر اس سال کے آخر میں انسانی کلینیکل ٹرائلز کرنے کی اجازت طلب کر رہی ہے۔

Humanoider Roboter | Künstliche Intelligenz in der Justiz
ماہرین کے مطابق برین کمپیوٹر انٹر فیس ''متعدد اخلاقی خدشات‘‘ کو جنم دیتے ہیںتصویر: Alexander Limbach/Zoonar/picture alliance

اعصابی اخلاقیات کا جنم

ماہرین کے مطابق بی سی آئی ''متعدد اخلاقی خدشات‘‘ کو جنم دیتے ہیں، جن پر محققین، کمپنیوں، فنڈنگ ​​ایجنسیوں، ریگولیٹرز اور خود صارفین کو احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ٹیکنالوجی اخلاقی تحقیقات کے ایک نئے شعبے کو جنم دے رہی ہے: نیوروایتھکس، یہ وہ جگہ ہے جہاں بحثیں سائنس فکشن کا  زیادہ رخ کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر، جب زیر بحث ڈیٹا لوگوں کے خیالات سے متعلق ہو تو رازداری کی خلاف ورزیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟ ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ رسائی کی کمی معاشرتی عدم مساوات کو بڑھا نہیں دیتی؟ کیا ہوتا ہے جب یہ معلومات براہ راست دماغ میں داخل کی جا سکتی ہیں؟‘

اس سب کے بعد یہ سائنس فکشن کا کردار ہے، جو ہمیں مستقبل میں آنے والی چیزوں کے لیے تیار کرتا ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں’’بہادر نئی دنیا‘‘ اور ‘‘1984’’ جیسے ناولوں میں نگرانی اور تکنیکی کنٹرول کے بارے میں انتباہ موجود تھے۔ کیا ہم نے ان کی بات سنی ہے؟

فریڈ شوالر ( ش ر⁄ ا ب ا)

مصنوعی بازو تیار کرنے والا پاکستانی اِسٹارٹ اَپ ’بائیونکس‘