1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھانے کا شوقین ہونا ایک بیماری بھی ہو سکتی ہے

20 اپریل 2023

بہت سے لوگوں کی خوراک دیکھ کر آپ سوچتے ہیں کہ کوئی اتنا زیادہ کیسے کھا سکتا ہے؟ ایسے لوگ بھوک نا ہوتے ہی بھی ہروقت کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ زیادہ کھانا صحت مند ہونے کی نشانی نہیں بلکہ یہ ایک بیماری بھی ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4QLBb
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

آپ نے اکثر و بیشتر سنا ہو گا کہ فلاں شخص ایک وقت میں اتنی روٹیاں کھا جاتا ہے۔ یا پھر فلاں کو کھاتے دیکھا ہے کبھی۔ کتنا کھا جاتا ہے؟ ہمارے ہاں اس صورت حال کو لے کر مقابلے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار اس قسم کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں، جہاں ایک شخص بے تحاشا کھا رہا ہوتا ہے لیکن اس کی جسمانی ہیت اس کے اس بے انتہا کھانے کے متضاد ہوتی ہے۔ ایسے شخص کو ہمارے ہاں "فوڈی" یا "کھانے کا شوقین" کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ 

 اس بیماری کا نام بلیمیا (بو۔لی۔می۔اوہ) نرووسا، جسے عام طور پر بلیمیا کہا جاتا ہے۔ یہ کافی سنگین اور عجیب قسم کی بیماری ہے۔ اس کا شکار لوگ اپنے کھانے کی عادت پر کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ پھر اس بے تحاشا کھائے ہوئے کھانے سے حاصل کی گئی کیلوریز سے غیر صحت مندانہ طریقہ سے جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان طریقوں میں ادویات کے سہارے مصنوعی طور سے بے تحاشا قے کرنا، ضرورت سے زیادہ خود کو بھوکا رکھنا، وزن کم کرنے والے سپلیمنٹس کے اضافی استعمال یا پھر اتنہائی سخت ورزش شامل ہے۔

اس بیماری کا کسی کو ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ لیکن اس کی بنیادی وجوہات ابھی تک دریافت نہیں ہو سکیں ہیں۔ کچھ ریسرچز اس کو جنیٹک ڈس آرڈر کہتی ہیں، جبکہ کچھ ریسرچز کے مطابق اس کی بنیادی وجہ جذباتی اتار چڑھاؤ یا سماجی رویوں کی سختی بھی ہے۔ لیکن اگر آپ کو بلیمیا ہے تو آپ پہلے سے ہی اپنی جسمانی ہیت اور وزن کو لے کر پریشان رہتے ہیں۔ اور اس کو خود ساختہ مان کر خود پر سختی کرتے ہیں۔ یہ بیماری صرف خوراک اور وزن سے متعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس سے آپ کی شخصیت کا امیج جو ابھر کر آتا ہے اس پر بھی فرق پڑتا ہے۔ لیکن اس کا مناسب اور بروقت علاج سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ 

لیڈی ڈیانا نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں اپنی اس بیماری اور اس سے متعلق جنگ کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے علاوہ لیڈی گاگا، برٹنی سپیئرز، رچا چڈا اور ایلٹن جان جیسے لوگ بھی اس بیماری کا شکار رہے ہیں اور اس کے علاج کے لیے باقاعدہ کوشش کی ہے۔ 

یہ بیماری عموما ٹین ایج میں ہی سامنے آجاتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ 15 سے 19 سال تک کے بچے اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس کی علامات میں سب سے اہم علامت یہ ہے کہ اپنے وزن اور جسمانی ساخت کو لے کر ہر وقت اپنے کھانے کا حساب کتاب کرتے رہنا۔ اس کے علاوہ اچانک بہت زیادہ کھانے کا دورہ پڑنا یا کھانے پر کنٹرول نہ رہنا، زبردستی خود کو بے تحاشا ورزش پر مجبور کرنا، وزن کم کرنے کے لیے ادویات استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر آپ کوان میں سے بلیمیا کی کوئی علامات ہیں تو جلد از جلد طبی مدد حاصل کریں۔ اگر علاج نہ کیا جائے تو بلیمیا آپ کی صحت کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ بہت زیادہ کھانا موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔ مگر اگر آپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ آپ بلیمیا کا شکار ہیں تو علاج میں دیر نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موجودگی کافی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے، جس میں خواتین میں ماہواری کے مسائل، نظام ہضم کے مسائل، دانتوں اور مسوڑھوں کی تکالیف، ڈی ہائیڈیریشن، دل کے امراض یا نشہ آور ادویات کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ اس ضمن میں احتیاطی تدابیر بچوں کی ٹین ایج سے ہی اختیار کر لینی چاہیے ہیں تاکہ وہ اس میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں۔ مثلا بچوں میں اس سے متعلق مثبت رویے کی ترغیب دیں۔ جب بچے ساتھ ہوں تو ان کے وزن کو نشانہ بنانے کی بجائے ان کو اس بات کا احساس دلائیں کہ صحت مندانہ زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے، اس سے بچے میں لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہوگی۔ خوراک کو مناسب کریں اورمناسب ورزش روز مرہ کی زندگی میں شامل کریں۔

اس کے علاج کے لیے اس کے مخصوص ڈاکٹر کے علاوہ آپ کسی ماہر نفسیات سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ ادویہ کے ساتھ ذہنی طور پر اس بیماری کو قبول کرنا اور اس کے علاج کے راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اس بیماری کی وجہ سے بڑھتے وزن کو لے کر لوگوں کے رویے مریض کو مزید ڈپیریشن میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاملات خود کو نقصان پہنچانے یا خود کشی تک جا سکتے ہیں۔ 

یاد رکھیں اچھا اور صحت مند کھانا، کھانا اچھی بات ہے لیکن بے تحاشا کھانا خطرے کی گھنٹی ہے۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔