1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم گوشت کھانا ماحول دوستی ہے، لیکن یہ بات اتنی درست بھی نہیں

16 اکتوبر 2020

زمین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں کہا جاتا ہے کہ کم گوشت کھانا اور زیادہ پودے لگانا دونوں ناگزیر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف کروڑوں انسانوں کی گزر بسر مویشی پالنے پر ہے، اور یہ صورت حال ان کے لیے آسان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3k20U
تصویر: AFP/Luis Tato

ماحولیاتی محققین برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ بات کرہ ارض کے مفاد میں ہے کہ انسان گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات کم کھائیں کیونکہ یہ بات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ایک سیارے کے طور پر زمین کے لیے بھی فائدہ مند ہو گی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مویشیوں سے خارج ہونے والی گیسیں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر زمین کے بالائی ماحول کے لیے انتہائی مضر ہیں۔

کیا صرف سبزی خوری صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟

'انسان اور مویشی ماحول دشمن‘

کسانوں کی املاک میں شمار ہونے والے مویشیوں میں بکریاں، گائیاں، بھینسیں، سؤر اور پولٹری (مرغیاں، بطخیں اور دیگر پرندے) شمار ہوتے ہیں اور یہ سالانہ بنیادوں پر 7.1 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ مجموعی انسانی آبادی سال بھر میں ایسی تقریباً 14.5 فیصد گیسیں خارج کرتی ہے۔

یہ اندازہ اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او (FAO) کا لگایا ہوا ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ مویشیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کُل مقدار میں سے تقریباً 65 فیصد وہ گھریلو چوپائے خارج کرتے ہیں، جن کا گوشت اور دودھ انسان استعمال کرتے ہیں۔

BdTD Indien Reisfeld
تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro

اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق گھریلو مویشیوں کی خارج کردہ گیسیں صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ انسانوں کے پالے ہوئے مویشی تین چوتھائی زرعی اراضی پر غلبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگل بردگی بھی کرتے ہیں اور پانی بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔ جنگل بردگی میں خاص طور پر ایمیزون کے جنگلات کی مثال دی جا سکتی ہے۔

گوشت نہ کھانے سے انسانی جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں

اربوں انسانوں کو گوشت کیوں درکار ہے؟

کہا جاتا ہے کہ زمین پر مغربی دنیا کے افراد کی گوشت خوری کی عادت میں کمی آنے سے بظاہر کچھ بھی نہیں ہو گا۔

یورپی افراد کی اوسط گوشت کھانے کی عادت باقی ماندہ دنیا کے مقابلے میں دگنی ہے اور اسی طرح دودھ سے بنی اشیاء کا استعمال بھی تین گنا زیادہ ہے۔

دوسری جانب کرہ ارض کے جنوب کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ اس علاقے میں ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی ضروری اجزاء کی حامل متوازن خوراک کے حصول سے دور ہے۔

ایف اے او کے مطابق خوراک کے ضروری اجزاء (خاص طور پر پروٹین) کا حصول صرف جانوروں سے ہوتا ہے۔ یہ پروٹین دودھ، گوشت اور انڈوں سے حاصل کی جاتی ہے۔

سستا گوشت مت خریدیں، جرمن وزیر کا مشورہ

مویشی، بھوک اور زرعی نظام

انٹرنیشنل انسٹیوٹ برائے پائیدار ترقی (IISD) کی سرکردہ عہدیدار کیرن اسمالر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمدہ خوراک دالوں، پھلوں اور سبزیوں سے مل جاتی ہے لیکن مویشی اور ڈیری مصنوعات انسانوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔

Welthungerindex EN

کورنیل یونیورسٹی اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے پائیدار ترقی کی ایک مشترکہ رپورٹ رواں ہفتے جاری کی گئی۔ اس میں بھی مویشیوں، زندگی اور زمین کے مابین تعلق کو واضح کیا گیا۔

اس رپورٹ کے مطابق مویشی زراعت سے منسلک ایک اہم فیکٹر ہے اور گائے کے فضلے سے بننے والی قدرتی کھاد کئی فصلوں کی نشو و نما کے لیے اہم ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی نظام کے لیے مویشی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں سبزی خور افراد کی تعداد میں اضافہ

بھوک کا خاتمہ اور مویشی

اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا انحصار مویشیوں پر ہے۔ دنیا میں ان سے حاصل ہونے والی خوراک بھوک اور کم خوراکی میں کمی کی وجہ بنتی ہے۔ بھوک کے عالمی انڈیکس کے مطابق سن 2019 میں تقریباً 700 ملین انسانوں کو بھوک کا سامنا رہا تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشی ترقی غربت اور بھوک میں کمی لا سکتی ہے۔ اس تناظر میں عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو اگلے دس برسوں میں غربت اور بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد 850 ملین تک پہنچ جائے گی۔

مارٹن کوئبلر (ع ح / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں