1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹروں اور ہیلتھ کیئر ورکرز پر تشدد سے حاصل کیا ہوتا ہے؟

20 اکتوبر 2020

سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریاض اپنے علاقے کے عوام کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر اور اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کے جزبے کو خیرباد کہتے ہوئے لاہور چلے گئے۔ صبا حسین کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3kBAJ
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

ڈاکٹر ریاض کا تعلق سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے ایک گاؤں سے ہے۔ انہوں نے ایف سی پی ایس پارٹ ٹو کا امتحان پاس کر کے اپنی آبائی تحصیل والے ہسپتال میں منتقل ہونے کو ترجیح دی۔ اپنا کام ذمہ داری سے کرنا ان کی طبیعت میں شامل تھا، جس کی گواہی گاؤں اور شہر کے لوگ بھی دیتے تھے۔ یہاں تک کہ  لوکل اخبار کا وہ رپورٹر بھی ان کی محنت اور دیانت کا معترف تھا، جس کے ہاتھوں ریاض نے صدمہ اٹھایا۔ رپورٹر اپنے ایک عزیز کو لے کر ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹر ریاض ہسپتال میں موجود نہیں تھے۔ رپورٹر نے کوئی معلومات حاصل کیے بغیر ڈاکٹر ریاض کے خلاف ایک خبر چلوا دی کہ ''ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں عوام پریشان‘‘۔ یہ خبر پڑھ کر انتظامیہ اور عوام  ڈاکٹر ریاض کی جان کو آگئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انہیں گالیاں دینا جیسے عوامی فرض بن گیا۔ آخر کار ڈاکٹر ریاض دل برداشتہ ہو کر اور اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کے جزبے کو خیرباد کہتے ہوئے واپس لاہور چلے گئے۔

ڈاکٹروں اور طبی عملے کے خلاف تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے دل و دماغ میں سرکار کی نا اہلیوں یا سیاسی مخالفین کے لیے جو غصہ بھرا ہوتا ہے وہ ہم سرکاری ملازمین پر نکالتے ہیں۔ اگر وہ سرکاری ملازم کوئی ڈاکٹر ہو تو ہمیں اپنی فرسٹریشن نکالنے میں اور بھی سہولت ہوتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے زیادہ تر ڈاکٹر دراصل اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ عام عوام فلمی اور ڈرامائی دنیا میں رہتی ہے، جہاں ہسپتال میں ایمبولینس سروس، اسٹریچر کے ساتھ ساتھ وارڈ بوائے بھی بھاگتے ہوئے آرہے ہوتے ہیں۔

عدم برداشت کے پیچھے پوشیدہ عناصر

پولیو رضاکاروں کا بھی کوئی سوچے گا؟

ہم یہاں تشدد کی دو اہم شکلوں کی بات کر رہے ہیں، ایک زبانی نوعیت کا اور دوسرا جسمانی۔ 2019ء کے ایک پاکستانی سروے کے مطابق چھ ماہ میں اوسطاﹰ ایک تہائی سے زیادہ ہیلتھ ورکرز نے ہر قسم کے تشدد کا سامنا کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہسپتال جانے سے پہلے ہی لوگ اپنا سیاسی واسطہ ڈھونڈنے میں جت جاتے ہیں۔ ہمارا کہیں کسی بااثر لوگوں سے تعلق واسطہ تعلق نکل آئے تو اس کے بعد ہم ڈاکٹر سے سیدھے منہ بات کرنے کی بجائے سیدھا دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ یہ دھمکیاں اس قدر زور آور ہوتی ہیں کہ اکثر ڈاکٹر اُس مریض کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو پہلے سے زیر علاج بھی ہے اور زیادہ ضرورت مند بھی۔ کیونکہ ان دھمکیوں اور سفارشوں کے بعد ڈاکٹر کے لیے کسی کی جان بچانے کے ساتھ یہ بھی ایک بڑا سوال بن جاتا ہے کہ وہ اپنی جان کیسے بچائے اور نوکری کیسے بچائے۔

ظاہر ہے سارے کا سارا الزام صرف عوام کو ہی نہیں دیا جا سکتا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارا ملک غریب ہے اور  اس کا انتظامی ڈھانچہ عجیب و غریب ہے۔ ہر آرگنائزیشن اپنے کچھ اہداف طے کرتی ہے۔ پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق اسے حاصل کرتی ہے۔تحصیل کے ایک ہسپتال میں اگر سو فیصد عملہ موجود ہو تو بھی وہاں ایک ماہ میں سات ہزار تک مریضوں کا علاج کرنے کی  گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حالات یہ ہیں کہ عملہ صرف پچاس فیصد ہوتا ہے اور مریضوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اس اضافی بوجھ کا طبی عملے کو کوئی اضافی معاوضہ تو کیا ملنا، الٹا ڈاکٹر اپنے وسائل خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی کمی کوتاہی ہوجائے تو تیمارداروں کی نظر میں سارا قصور ڈاکٹروں کا نکل آتا ہے۔ حالانکہ یہ بات سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ذہانت نہیں چاہیے کہ وسائل کی کمی کا ڈاکٹر کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ ہسپتال میں عملہ، سہولیات اور ضروریات پوری ہوں تاکہ اس کے کندھوں کو بھی کچھ آرام ملے۔  

حکومتی سطح پر ڈاکٹرز اور طبی عملے کے خلاف تشدد کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ کورونا وبا کے ابتدائی دنوں میں میڈیکل سٹاف کو پہلی صف میں کھڑا تو کر دیا گیا مگر انہیں خود کورونا سے بچنے کے لیے حفاظتی سامان نہیں دیا گیا۔ بلوچستان کے ڈاکٹروں اور طبی عملے نے تو جب حفاظتی سامان کا مطالبہ کیا تو جواب میں انہیں لاتیں گھونسے بھی پڑے۔ ایسے میں کسی ڈاکٹر نے اگر کام کرنے سے گریز کیا تو اسے بے حس کہا گیا۔ اور جنہوں نے ایسے حالات میں بھی کام کیا، ان کو کورونا سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ملازمین کے خلاف تشدد ہمارے معاشرے میں تمام سطحوں پر مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وسائل اور پالیسیوں میں پائے جانے والے سقم کی ذمہ داری ڈاکٹروں پر نہیں بلکہ حکومت اور حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جو کورونا کی علامات ظاہر ہونے پر بھی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے، حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے اور انتہائی خراب صورتحال میں ہسپتال جاتے ہیں، تو ہماری اس غفلت اور تاخیر کے ذمہ دار بھی ڈاکٹر نہیں ہوتے۔

ایک ڈاکٹر کے مطابق وہ اپنی نائٹ ڈیوٹی کر رہا تھا کہ موٹر وے انسپکٹر کچھ زخمیوں کو لے کر ہسپتال پہنچا۔ زور زور سے چلانے لگا کہ میڈیکل اسٹاف کہاں ہے۔ وہ کسی کو زخمیوں کے قریب بھی نہیں آنے دے رہا تھا۔ میرے بحث مباحثہ پر اس نے مجھے دھمکی دی اور کال کر کے پچاس سے ساٹھ لوگ میری مار میٹ کے لیے بلوا لیے۔ یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوا کہ جو لوگ تشدد کرنے کے لیے آئے ہیں ان میں سے آدھے وہ ہیں جن کا میں علاض کر چکا تھا۔ میں اس دن سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا میں نے ٹھیک شعبے کا انتخاب کیا ہے؟ کیا مجھے لوگوں کی دیکھ بھال کرنا چاہیے؟

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26