1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی اور بھارتی فوجیوں میں تازہ جھڑپ کا مطلب؟

26 جنوری 2021

بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی علاقے سکّم میں سرحد پر تعینات بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تاہم اس میں ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3oPyT
Indien allgemeine Bilder der indischen Armee mit chinesischen Soldaten
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee

بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی ریاست سکم میں سرحد پر گشت کرنے والے بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں پیش آنے کے بعد دونوں جانب کے سینیئر فوجی حکام کے درمیان بات چيت کے بعد اس معاملے کو حل کر لیا گیا ہے۔ تازہ واقعہ سکّم کے 'ناکو لا سیکٹر' کا ہے اور یہ جھڑپیں گزشتہ ہفتے بدھ کے روز پیش آئی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں دونوں جانب کے فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس میں بھارتی فوج نے اس واقعے کو ’’چھوٹی موٹی جھڑپ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اب معاملے کو حل کر لیا گيا ہے۔ فوج کے مطابق دونوں جانب سے ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا۔

تازہ واقعے کی تفصیلات

بھارت اور چینی فوجیوں میں یہ جھڑپیں ایک ایسے وقت میں پیش آئیں جب مشرقی لداخ میں کشیدگی کم کرنے کے مقصد سے دونوں جانب کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت ہونے والی تھی۔ سکم مشرقی لداخ سے تقریبا ڈھائی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

بھارتی فوج کا دعوی ہے کہ سرحد پر گشت کرنے والی چینی فوجیوں نے بھارتی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بھارتی فوج نے انہیں پیچھے دھکیلا اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی۔ بعض خبروں کے مطابق اس موقع پر دونوں جانب کے فوجیوں نے ایک دوسرے کے خلاف لاٹھی، ڈنڈوں کا استعمال کیا اور پتھراؤ کیا۔

لیکن بھارتی فوج نے اسے چھوٹا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ فریقین کے مابین اس طرح کے واقعات کو حل کرنے کا ایک نظام ہے اور اسی کے تحت دونوں جانب کے سینیئر فوجی حکام نے بات چیت کے ذریعے اسے حل کر لیا ہے۔

Indisch-Chinesische Grenze Grenzpass
تصویر: Getty Images

ایک معروف بھارتی انگریزی اخبار کے مطابق اس جھڑپ کے بعد علاقے میں دونوں جانب سے بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کر دیا گيا تھا تاہم اس کشیدگی کے باوجود فائرنگ کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور حالات پوری طرح سے قابو میں ہیں۔ 

چین کا رد عمل

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجان سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ان جھڑپوں کی نوعیت کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ تاہم ان کا کہنا تھا،’’چینی فوج امن کے قیام کے تئیں پر عزم ہے۔ اور بھارت کو کسی بھی ایسی کارروائی سے باز رہنا چاہیے جس سے سرحد پر صورت حال کے مزید بگڑنے کا خدشہ ہو۔‘‘

نئے محاذ کی تیاری

گزشتہ ہفتے کے اواخر میں بھارت اور چین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے نویں دور کی کمانڈر سطح کی بات چیت ہوئی تاہم وہ بے نتیجہ رہی۔ اس بات چیت سے قبل بھارتی میڈیا میں اس بات کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا تھا کہ لداخ میں کشیدگی اپنی جگہ تاہم چین کے جانب سے ایک اور محاذ کھلنے کا امکان ہے۔

یہ خبر اس حوالے سے آئی تھی کہ چین نے مبینہ طور پر بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے اندر ایک نئے گاؤں کی تعمیر کی ہے جو بھارت کی سرزمین پر بتایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سیٹلائٹ سے حاصل شدہ تصاویر بھی شیئر کی گئی تھیں تاہم بھارت نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ بھارتی ریاست اروناچل پردیش بھی متنازعہ خطہ ہے جس پر چین اپنا دعوی کرتا ہے۔

سن دو ہزار سترہ میں بھی سکّم کے پاس ڈوکلام علاقے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں اور پھر کئی ماہ تک کشیدگی جاری رہی تھی۔ گزشتہ ہفتے کی جھڑپوں کا تعلق بھی سکم سے ہے تاہم اس بار یہ ناکولا کے پاس ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شمالی سرحد  پہلے سے قدر پرامن تھی تاہم اس واقعے کے بعد یہاں  بھی حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ 

 

جے ایف 17 لڑاکا ایئر کرافٹس بمقابلہ رفائل لڑاکا طیارے

 بھارت چین کے درمیان سرحدی اختلافات

بھارت اور چین  میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان طویل سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا رواں برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20  فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، تاہم کسی پیش رفت کد بجائے کشیدگی برقرار  ہے۔

موسم سرما میں لداخ کا یہ علاقہ اس قدر سرد ہوتا ہے کہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے اور بیشتر جھیلیں برف میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ تاہم اس صورت حال کے باوجود  اس وقت بھارت اور چین کے کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے دونوں جانب ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اپنی اپنی پوسٹوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بعض مقامات پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی تھی اور دونوں جانب کی فوجیں کچھ حد تک پیچھے ہٹ گئی تھیں تاہم بیشتر متنازعہ علاقوں میں صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔  

صلاح الدین زین / ک م

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں