1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیا

2 جنوری 2024

پاک افغان سرحدی شہر چمن میں امیگریشن قوانین کے خلاف جاری احتجاجی دھرنا شدت اختیار کر گیا ہے۔ مظاہرین نے تجارتی سامان اور مہاجرین کو افغانستان لے جانے والے سینکڑوں ٹرکوں کو ڈرائیوروں سمیت ’قبضے‘ میں لے رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/4aoHD
چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیا
چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیاتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

گزشتہ دو ماہ سے بھی زائد عرصے سے چمن بارڈر پر پاسپورٹ کی لازمی شرط کے خلاف جاری احتجاجی دھرنے کے شرکاء اور حکومت کے درمیان مذاکرات تاحال ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔
بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی نے گزشتہ روز میڈیا بریفنگ کے دوران دھرنا مظاہرین پر قانون ہاتھ میں لینے کے الزامات عائد کیے تھے۔ نگران وزیر نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین حکومت سے ایسے من پسند مطالبات منظور کرانا چاہتے ہیں، جنہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

پاک افغان سرحد پر ہزاروں ٹرک کیوں روکے گئے؟

پاکستان آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے سربراہ میر شمس شاہوانی کہتے ہیں کہ چمن میں مظاہرین نے ساڑھے چار ہزار سے زائد ٹرکوں اور آئل ٹینکروں کو روک رکھا ہے، جس سے ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،''گزشتہ دو ماہ کے دوران بلوچستان سمیت ملک بھر سے لاکھوں غیرقانونی افغان مہاجرین کو حکومتی فیصلے کی روشنی میں ہمارے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا گیا ہے۔ یہاں سے تجارتی سامان کے لیے بھی، جو ٹرک افغانستان بھیجے گئے تھے، ان سب کو واپسی پر چمن میں پاک افغان سرحد پر مظاہرین نے زبردستی روک رکھا ہے۔ ہم نے نگران وزیر داخلہ سمیت دیگر حکام سے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں لیکن اس معاملے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہمارے ٹرک ڈرائیورز کو بھی زبردستی دھرنے میں بٹھایا گیا ہے۔‘‘
شمس شاہوانی کا کہنا تھا کہ ہزاروں ٹرکوں کی بندش سے صوبے میں ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزی بتایا، ''چمن میں پاک افغان سرحد پر ہمارے ہزاروں ڈرائیور بھی یرغمال ہیں۔ مقامی انتظامیہ ڈرائیوروں کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ ہزاروں ٹرکوں کی بندش سے اندرون ملک تجارتی سامان کی ترسیل کا سلسلہ بھی بہت کم چکا ہے۔ حکومت جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو بھی احتجاج پر مجبورکر رہی ہے۔‘‘

چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیا
چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیاتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ٹرانسپورٹرز کی بھی ملک گیر احتجاج کی دھمکی

بلوچستان گڈز ٹرانسپورٹ یونین کے مقامی عہدیدار  شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹروں کے مطالبات ترجیحی بنیادوں پر تسلیم نہ کیے گئے تو ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات اور خوراک کے سامان کی ترسیل روک دی جائے گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''چمن میں مشتعل افراد حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے نجی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گزشتہ چند یوم کے دوران ہمارے سینکڑوں ٹرکوں، ٹینکرز اور کنٹینرز کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ہمیں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر دھرنا مظاہرین کے مطالبات کی منظور ی کے بغیر ٹرکوں کو باہر لے جانے کی کوشش کی گئی تو سارے ٹرکوں اور آئل ٹینکروں کو نذر آتش کر دیاجائے گا۔‘‘
شفیق الرحمان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو حکومت کوئی تحفظ فراہم نہیں کر رہی اور چمن میں ایف سی کی موجودگی میں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیا
چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیاتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

دھرنا مظاہرین کے ساتھ حکومتی مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار

پاک افغان سر حد پر دھرنے میں موجود مقامی قبائلی رہنماء صلاح الدین ادوزئی کہتے ہیں کہ احتجاج ختم کرنے کے لیے حکومت مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے لیکن مظاہرین اپنے مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دھرنا مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ شدید حکومتی دباؤ کے باوجود مظاہرین کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ قبائلی عمائدین نے صورتحال کی بہتری کے لیے کوششیں کی ہیں لیکن سود مند ثابت نہیں ہو سکیں۔ پاسپورٹ کی شرط کے خاتمے کے لیے حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہاں کے قبائل کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت اقدامات کر رہی ہے، جس سے سرحد پر آباد پشتون قبائل شدید تشویش کا شکا رہیں۔‘‘
چمن میں پاک افغان سرحد پر جاری احتجاجی دھرنے میں شریک ہزاروں لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت افغان سرحد پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کر دے۔